اقوم متحدہ کے ادارے یونیسکو نے کہا ہے کہ افغانستان گذشتہ دو دہائیوں میں بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم میں کی گئی ترقی میں پیچھے جانے کا خطرہ ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یونیسکو نے کہا ہے کہ ’افغانستان میں اندرونی طور پر بے گھر افراد کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے جس سے افغان بچوں کے تعلیم کے ضائع ہونے اور پوری نسل کی تباہی کے خطرے کا خدشہ ہے اور اس سے ملک کے کئی برسوں کی پائیدار ترقی پر منفی اثر پڑے گا۔‘
یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 11 ستمبر کے حملوں کے بعد جب امریکی فوج نے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو پرائمری سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد تقریباً صفر سے بڑھ کر دو اعشاریہ پانچ ملین ہوگئی تھی۔
’افغانستان میں بین الاقوامی برادری کے تعمیری رابطےامن کےلیے ضروری‘
خواتین کی خواندگی تقریباً دگنی ہوگئی تھی اور اس وقت پرائمری کلاسز میں دس طالبعلموں میں چار لڑکیاں ہیں۔
مجموعی طور پر تقریباً دس ملین بچے اور جوان افراد تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یہ تعداد 2001 میں ایک ملین تھی۔
اب طالبان نے فیصلہ کیا ہے پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں خواتین مردوں سے علیحدہ ہوں گی اور وہ باپردہ ہوں گی۔
سرکاری اداروں کے لیے مزید سخت اصول و ضوابط متوقع ہیں جس میں مرد اساتذہ خواتین کو نہیں پڑھا سکیں گے۔
افغانستان میں پہلے ہی سے خواتین اساتذہ کی کمی ہیں۔
یونیسکو کا کہنا ہے کہ اس سے اعلیٰ تعلیم اور لڑکیوں کی تعلیم کو وسیع پیمانے پر بہت زیادہ نقصان پہنچے گا اور ان کی زندگیوں پر منفی اثر پڑے گا۔
طالبان کے پہلے دور حکومت میں خواتین کی تعلیم پر پابندی تھی اور محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پر بھی پابندی تھی۔
افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد کے ختم ہونے کا خطرہ ہے، یہ افغانستان کے تعلیمی اخراجات کا نصف فراہم کرتا ہے۔ ان فنڈز کے باوجود اساتذہ کی تنخواہیں وقت پر نہیں دی جاتی۔
0 Comments