Latest News

موجودہ زمانے کی عام بیماری بواسیر: حکیم نازش احتشام اعظمی

موجودہ زمانے کی عام بیماری بواسیرحکیم نازش احتشام اعظمی
فوٹو: حکیم نازش احتشام اعظمی

 بواسیر جسے میڈیکل کی زبان میںپائلز(haemorrhoids) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ مسئلہ ہے۔ اس بیماری کی سب سے بری بات یہ ہے کہ لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے اور خدا نخواستہ ہم میں سے اگر کوئی اس کا شکار ہوجائے تو وہ اپنی بیماری کے بارے میں کسی کو بھی بتانے سے بھی گریز کرتاہے، اسے یہ خوف دامن گیر ہوجاتا ہے کہ اگر اس کے قریب رہنے والے ،عزیز و دوست  اس کی بیماری کے بارے میں جان لیں گے تو وہ اس کے پاس اٹھنا بیٹھنا، حتی کہ کھانا پینا اور ملنا جلنا بھی چھوڑ دیں گے۔ اس مرض کی صورت حال اس لئے بھی زیادہ سنگین ہے کہ دوا علاج اور احتیاط کی وجہ  سے  ایک بار ٹھیک ہونے کے بعد بھی اس کے دوبارہ ہونے کا خطرہ ہمیشہ بنا رہتا ہے ، لیکن اگر آپ کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کریں تو اس سے ہونے والی تکلیف کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ تدابیر بتانے سے پہلے پائلز(haemorrhoids) کے حوالے ہندوستان میں اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، پہلے اسے ملاحظہ کرلیا جائے۔
 چناں چہ ۱۹ اگست ۲۰۱۷ کو انگریزی روزنامہ ’’ دی ہندوستان ٹائمز‘‘ میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں بڑی تیزی کے ساتھ پائلز متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ سالانہ ۱۰ ملین یعنی ایک کروڑ ہندوستانی بواسیر کی تکلیف میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اس بیماری کا اہم سبب تناؤ ، بے خوابی ، قبض اور فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے رجحانات ہیں۔ جس سے یہ مرض ایک وباکی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر سکنڈ میں ۴۵ سے ۶۵ برس کی عمر کا ایک فرد اس بیماری کا شکار ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ خواتین کی بڑی تعداد دورانِ حمل پائلز (haemorrhoids) کے دردکی شکایت لے کر اسپتال پہنچتی ہیں۔پائلز یعنی بواسیر کی تباہ کاری فقط سن رسیدہ افراد اور حاملہ خواتین تک ہی محدود نہیں رہ گئی ہے، بلکہ اب یہ مرض کم عمر بچوں، حتیٰ کہ نو عمر جوانوں میں بھی تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے۔اس وقت کی رپورٹ یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر آٹھواں شخص بواسیر کی تکلیف سے دوچار ہے۔ ایشین انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ، دہلی کی ماہرغذائیات(Dr. Vibha Bajpai, Dietician of Asian Institute of Medical Sciences Delhi) ڈاکٹر ویبھا باجپائی  نے یہ انکشاف کیا ہے۔ڈاکٹر ویبھا  بتاتی ہیں کہبواسیر کا مرض  دن بدن  شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ویبھا جو ایک باصلاحیت ڈائٹیشین کے ساتھ ایلوپیتھک فارما کوپیا کی مستند معالج بھی ہیں ، وہ خود اعتراف کرتی ہیں کہ طویل عرصے تک قبض رہنا پائلز ہونے کا بنیادی سبب ہے  اور یہ صحت کے لیےانتہائی خطرناک ہے۔ان کے مطابق مایوس کن بات یہ ہے کہ ایلوپیتھک میں پائلز کا کوئی خاص علاج موجود ہی نہیں ہے ، بلکہ جدید میڈیکل سائنس میں آپریشن ہی اس بیماری کاواحد علاج ہے۔حالاں کہ اس بات کے ہزاروں شواہد موجود ہیں کہ بیشتر کیسوں میں آپریشن کرانے کے بعد بھی دوبارہ یہ بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ جب کہ طب یونانی سمیت لگ بھگ سبھی دیسی طریقہ علاج میں بواسیر کاموثر علاج موجود ہے اور آزمودہ بھی ہے۔ہاں! اس سلسلے میں یہ بات ضرور ہے کہ اس بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے  کھانے پینے میں بے احتیاطی اور فاسٹ فوڈ کے فروغ پارہے کلچر سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔ اس کے بعد طویل اور صبر آزما علاج کا مرحلہ آتاہے۔
 چوں کہ یہ مرض ایک دودن کی بے احتیاطی سے نہیں آتا ، بلکہ طویل عرصہ تک فطرت سے بغاوت کرکے جدید کلچر میں ڈھلنے اور اسی قسم کے کھانے پینے کا عادی ہو جانے کا نتیجہ ہو تا ہے ، ہم زندگی کے مختلف مراحل میں ڈھل کر اپنے آپ کو اس کا عادی بنالیتے ہیں، تب جا کر موذی بواسیر گھن کی طرح ہمارے جسم با لخصوص معدے میں گھر کر لیتا ہے۔لہذا اسی طرح اس کا علاج بھی ’’ چٹ منگنی پٹ بیاہ‘‘ کی طرح ممکن نہیں ہے۔  
قدیم و جدید تمام یونانی ماہرین اور اطبا کا اس پراتفاق ہے کہ اگر اس مرض کی بر وقت تشخیص اور علاج نہ  کرایا جائے تو مرض بڑھنے کا خدشہ ہمیشہ لگارہتا ہے۔ بواسیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مرض عمر رسیدہ لوگوں میں عام ہے۔ مگر ایک تحقیق کے مطابق یہ مرض کم عمر لوگوں میں بھی عام ہے۔جس کی تفصیل ہم نے مندرجہ بالا سطور میں کردی ہے۔خیال رہے کہ قبض اور بواسیر چند ایسے امراض میں سے ایک ہیں، جو انسان کی طبیعت میں بے چینی کا سبب بھی بنتے ہیں۔
دیسی طریقہ طب میںبواسیر کا مئوثر  علاج ممکن ہے، البتہ مرض کے ساتھ اس کے اسباب اور وجوہات کا پتہ لگا لیا جائے۔ مگر زیادہ تر اطبا فنی مہارت کی کمی کی وجہ سے مرض کے اسباب کا پتہ لگائے بغیر چند قبض کشا ایلو پیتھک دوائیں اور ایک دو یونانی معجون و سفوف دیکر یہ دعویٰ کر بیٹھتے ہیں کہ اس سے یہ مہلک بیماری جڑ سے ختم ہوجائے گی۔ جب کہ ہمارا طریقہ علاج سختی کے ساتھ معالج کواس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ مرض کی تشخیص کرتے ہوئے سب سے پہلے اس کے صحیح سبب کا پتہ لگایے۔ اس کے بعد ہی علاج شروع کیا جائے۔
علاوہ ازیں دیگر بیماریوں کی طرح اس کی بھی مختلف اقسام ہیں:
( 1 )۔ اندرونی بواسیر( Internal To Anus)  یہ مقعد کی نالی کے اندر ہوتی ہے اور لعاب دار جھلی (Mucus) سے ڈھکی ہوتی ہے۔
( 2 ) ۔بیرونی بواسیر( External To Anus) یہ مقعد کی نالی کے باہر ہوتی ہے اور جلد (skin) سے ڈھکی ہوتی ہے۔
(3 )۔ عام بواسیر (Inteiro Exteral)  اگر پہلی اور دوسری ، دونوں اقسام کی بواسیر ایک ساتھ ہو، ایک ہی مریض میں ہو تو اسے عام بواسیر (Common) کہتے ہیں۔ بواسیر اقسام کے لحاظ سے تین طرح کی ہوتی ہے۔ خونی، بادی اور مسوں والی۔یہ انتڑیوں کی بیماری ہے جو انتڑیوں کی کارکردگی میں خرابی واقع ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ گرمی کی نسبت سردی کے موسم میں زیادہ رونما ہوتی ہے، کیونکہ سردیوں میں ہم پانی کا استعمال کم کرتے ہیں، اس وجہ سے جسم میں خشکی کا غلبہ ہوکر انتڑیوں کے افعال میں نقص پیدا کردیتا ہے۔ بڑی آنت میں سوزش پیدا ہونے ، خاص طور پر آخری حصے میں ورم ہوجانے سے مقعد بھی متاثر ہوتی ہے۔ یوں مقعد کا منہ پھول کر مسے کی سی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
(2) ۔ خونی بواسیر:  اس میں مقعد سے خون رس کر پیشاب کے ساتھ نکلنے لگتا ہے۔
(3) ۔ بادی بواسیر:  اس میں خون تو نہیں نکلتا ، لیکن تکلیف خونی بواسیر سے زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ مقعد کے منہ پر مسہ نمودار ہونے سے رفع حاجت کے وقت بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ بہت اذ یت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ خونی اور بادی بواسیر کی علامات میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔
بواسیر کی دونوں اقسام میں مریض شدید قبض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مقعد کے منہ پر تیز جلن اور خارش ہوتی ہے۔ پیشاب اور پاخانہ کے اخراج میں تنگی اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مریض کی بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ قوت ہاضمہ میں خرابی پیدا ہو کر تبخیر، تیزابیت اور گیس پیدا ہونے لگتی ہے۔ پاخانہ کے مکمل طور پرخارج نہ ہونے سے اپھارہ سا ہو کر پیٹ پھولا پھولا رہتا ہے۔ منہ سے بدبو آنے لگتی ہے۔ چہرے کی رنگت زرد اور جسامت کمزور پڑ جاتی ہے۔ اعضا میں دکھن کا احساس پیدا ہو کر جوڑوں اور کمر میں درد رہنے لگتا ہے۔ نیند میں کمی اور مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ طبیعت میں بے چینی رہتی ہے۔
یہ مرض ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ میں رہنے والوں کو بھی ہوتا ہے۔ مرغن، بادی گوشت، تیز مرچ، مسالہ، چاول، بینگن، مسور کی دال، فاسٹ فوڈز، کولا مشروبات، بیکری مصنوعات اور ثقیل غذاؤں کے شوقین زیادہ تر افراد بواسیر میں مبتلا دیکھے گئے ہیں۔ صبح سے شام تک بیٹھ کر کام کرنے والے افراد کو بھی بواسیر ہو سکتا ہے اور بہت سے عوامل جو اس بیماری کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان میں موٹاپا، گردے اور مثانے کی پتھری، امراض معدہ، امراض جگر، انتڑیوں کی بیماریاں، دل کے امراض، دائمی قبض، زیادہ جلاب لانے والی دواؤں کا استعمال، مسلسل کھانا، سستی، کاہلی، خواتین میں دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ حیض کا بند ہونا اور حمل کے دوران بھی بواسیر ہو جاتا ہے۔ بعض کا حمل کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور بعض کا ختم نہیں ہوتا۔ زیادہ سگریٹ کا استعمال، خالی پیٹ سگریٹ پینا بواسیر کودعوت دینے والی اہم عادت ہے۔
بہر حال جیسا کہ ہم ایک ایلوپتھک ماہر کا دعویٰ ’’ کہ ایلوپتھک میں اس بیماری کی کوئی دوا موجود ہی نہیں ہے شروع میں ہی بتا چکے ہیں، لہذا پائلز یعنی بواسیر (haemorrhoids)ہوجانے کی صورت میں آپ کو براہ راست کسی آزمودہ کار مستند یونانی معالج سے ملنا چا ہئے۔ ذیل میں کچھ پر ہیز واحتیاطی تدابیر نقل کی جارہی ہیں ،جسے اختیار کرکے ہم اس مرض اور اس کی تکلیف سے بڑی حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔
1. اگر آپ بواسیر کے مریض ہیں تو آپ کو بہت زیادہ تیل اور مسالہ دار چیزیں کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایسا کھانا کھانے سے بواسیر کی تکلیف مزید بڑھ سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کو بواسیر کا عارضہ نہیں ہے تو بہتر ہے کہ زیادہ مسالے دار کھانے سے پرہیز کریں۔
2. پائلز کے مریض کو بہت زیادہ فاسٹ فوڈ نہیں کھانا چاہیے۔ بہتر ہوگا  کہ بواسیر  کے مریض کھانے پینے میں پھلوں اور سبزیوں کو ترجیح دیں۔ یہ صحت کے لیے بھی اچھا ہے  اور اس سے بواسیر سے ہونے والی پریشانی میں اضافہ نہیں ہوگا۔
3۔ اگر آپ کو بواسیر ہے تو راجما اور دیگر دالیں دال وغیرہ کھانے سے ہر ممکن پرہیز کریں۔ ان کا استعمال آپ کی تکلیف کواور زیادہ  بڑھا دے گا۔
4۔ بواسیر کا مریض گھی اور تیل کے زیادہ استعمال سے تو بالکل ہی کان پکڑ لے۔ گھی اور تیل کا زیادہ استعمال بواسیر کو زیادہ تکلیف دہ بنا سکتا ہے اور اس کی وجہ کوئی بھی دوافائدہ نہیں پہنچاتی ، بلکہ ’’ کوڑھ میں کھاج ‘‘ والے محاورے کو حقیقت کا روپ دے دیتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر