کھلے عام مسلمانوں کے خلاف پر تشدد تقاریر اور نسل کشی کی دھمکیوں پر دنیا بھر سے سخت ردِعمل، مودی حکومت پر سوالیہ نشان۔
نئی دہلی:(ایجنسی) غیر ملکی میڈیا میں دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی والی خبر دُنیا بھر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ پتی نرسمگھانند کے لیے یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب انھوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی بات کی ہو۔ اس سے قبل انہوں نے پیغمبر اسلام پر بھی قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی ایم پی ناز شاہ نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی ہندو یووا واہنی کے پروگرام کی ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ’’یہ 1941 کا نازی جرمنی نہیں ہے۔ یہ 2021 کا ہندوستان ہے۔ مسلمانوں کو قتل کرنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ یہ اب ہو رہا ہے۔ جو لوگ اس گروپ کو شدت پسند کہہ رہے ہیں وہ جان لیں کہ ہٹلر نے بھی اسی طرح آغاز کیا تھا۔ اس معاملے میں عالمی سطح پر احتجاج کہاں ہے؟‘‘
وہیں بائی لائن ٹائمز کے غیر ملکی نامہ نگار سی جے ورلیمین نے ٹوئٹر پر دہلی میں ہندو یوا واہنی کے پروگرام کا ویڈیو کلپ پوسٹ کیا ہے۔ اس کلپ میں سخت گیر ہندوتوا لیڈروں کی تقریر کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہے۔ ورلیمین نے ویڈیو کلپ سے انگریزی میں ایک لائن لکھی ہے – ’ہم ہندو راشٹر کی خاطر لڑنے اور مارنے کے لیے تیار ہیں۔‘
نیو جرسی کی روکرز یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین ہسٹری کے پروفیسر آڈری ٹرشکے نے بھی اس سے متعلق خبروں کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ’’ایک معاشرہ نسل کشی کو روکنا چاہتا ہے۔ اس سے متعلق پروگراموں کو روکاجاتا ہے اور گرفتاریاں ہوتی ہیں تاکہ پھر سے نہ ہو۔مودی کےبھارت میں؟ بی جے پی کے لیڈر ایسے پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں اور کوئی گرفتاری نہیں ہوتی ہے ۔‘‘
معروف پاکستانی صحافی حامد میر نے ہری دوار واقعے کی ویڈیو کلپ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ’’یہ خاتون کھلے عام ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ہوا دے رہی ہے۔ یہ ہٹلر کا خاتون ورژن ہے، جو مستقبل قریب میں نسل کشی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ عورت ثابت کر رہی ہے کہ محمد علی جناح بالکل درست تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے الگ پاکستان بنایا۔ شکریہ جناح صاحب۔‘‘
ہری دوار کے ویڈیو کلپ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے، انڈین امریکن مسلم کونسل نے لکھا، ’آئی ایم سی اے ہندو قوم پرستوں کی طرف سے ہندوستان میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی اپیل کرنے کی مذمت کرتا ہے۔ حال ہی میں ہندو انتہا پسند رہنماؤں نے دھرم سنسد کا انعقاد کیا اور مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی ہے۔‘
ترکی کے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی نے بھی اس حوالے سے خبر شائع کی ہے۔ ٹی آر ٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے، ’’حکمران نریندر مودی حکومت سے وابستہ سخت گیر دائیں بازو کے گروپوں کے رہنماؤں نے بھارت میں اقلیتوں کے خاتمے کی اپیل کی ہے۔ خاص طور پر ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ٹی آر ٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا، ’’ 30 جنوری 1948 کو گوڈسےنے گاندھی کا قتل کیا تھا اور ان کا تعلق بھی ہندوتوا کے نظریے سے تھا۔ بھارت میں بھی لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دہلی سے متصل گڑگاؤں میں مسلمانوں کو کھلے میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
دی ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا ایسو سی ایٹ اورمصنف مائیکل کیگل مین نے ٹویٹ کرکے لکھا ہے ’’ گزشتہ ہفتے بھارت میں نفرت پھیلانے والا تین روزہ پروگرام ہوا۔ اس میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کو بھی بھرکاگیا۔ یہ خوفناک ہے، لیکن حکومت کی طرف سے کوئی سختی یا مذمت نہیں کی گئی۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ خاموشی کم از کم حیران کن نہیں ہے۔ اس میں ایک اسپیکر حکمراں بی جے پی سے تھا اور باقی لوگ بھی بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ مائیکل کے اس ٹویٹ کو پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بھی ری ٹویٹ کیا ہے۔ پاکستان کے تمام اخبارات نے اسے نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔
روزنا مہ خبریں۔
0 Comments