Latest News

سیکولر سیاسی جماعتیں جواب دیں۔ اتواریہ: شکیل رشید۔

سیکولر سیاسی جماعتیں جواب دیں۔ اتواریہ: شکیل رشید۔
ایک جانب جب ’چوکیدار ہی جاسوس ہے!‘ کے نعرے میں کانگریس اور اس کے قائد راہل گاندھی کی آواز تیز سے تیز ہوتی جارہی ہے،تو دوسری جانب فرقہ پرستی کا عفریت مزید مہلک ہوتا جارہا ہے۔ سنیچر کے روز جب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں تب ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کا یہ انکشاف کہ ’’ہندوستان نے ۲۰۱۷ میں اسرائیل سے پیگاسس خریدا تھا‘‘ موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ بتادیں کہ یہ ایک ایسا اسپائی ویئر ہے جس کا استعمال کرکے لوگوں کی جاسوسی کی جاسکتی ہے۔ اسے حکومتوں کا ایک ’اسلحہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہ الزام ہے کہ مودی حکومت نے اس اسپائی ویئر کا استعمال کرکے حزب مخالف کے کئی بڑے سیاست دانوں، صحافی و دانشور حضرات کی جاسوسی کی تھی۔ ظاہر ہے کہ جاسوسی کا یہ عمل قطعی ناجائز و غیر قانونی ہے۔ مودی حکومت نے بار بار اس کی تردید کی ہے کہ اسپائی ویئر کی خریداری اور لوگوں کی جاسوسی کرانے میں اس کا ہاتھ ہے، لیکن اب ’’نیویارک ٹائمز‘ کی تفتیشی رپورٹ نے اسے کٹگھرے میں لاکر کھڑا کردیا ہے۔کانگریس نے ’’چوکیدار ہی جاسوس ‘‘ ہے کا نعرہ زور دار آواز میں بلند کردیا ہے۔ مودی حکومت پر غداری اور سپریم کورٹ میں جھوٹ بولنے کا الزام لگ رہا ہے۔ خیر یہ الزامات مودی سرکار کے لیے کوئی نئے نہیں ہیں۔ کووڈ ۱۹ کے معاملے کو ہی لے یں اس معاملے میں جو پابندیاں عائد ہوئی ہیں، اور جس طرح سے کووڈ کے ٹیکے نہ لگوانے والوں کو ہراساں کیاجارہا اور ان سے مراعات چھینی جارہی ہیں، وہ سب پر عیاں ہے۔ لیکن مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں بیان دیا ہے کہ ٹیکہ لگوانے کےلیے کسی پر کوئی زور زبردستی نہیں کی جارہی ہے اور نہ ہی کسی پر دبائو ہے۔ حالانکہ لوگوں کو ٹرینوں کے ٹکٹ تک سےمحروم کیاجارہا ہے، کہ وہ ٹیکہ نہیں لگوائے ہوئے ہیں۔ راشن کی دکانوں پر انہیں اجناس کی فراہمی سے منع کردیاجاتا ہے۔ یہ دعویٰ کہ ٹیکے لگوانے کےلیے کسی پر کوئی زبردستی نہیں کی جاتی، جھوٹ ہی تو ہے۔ خیر بات پیگاسس کی ہورہی تھی۔ اب جب ایک رپورٹ ایسی آئی ہے جس نے مودی سرکار کو کٹگھرے میں کھڑا دیا ہے تو کیا اسے جمہوریت کی جیت سمجھ لیاجائے؟ نہیں! سچ تو یہ ہے کہ یہ کانگریس ہی ہے جس نے اپنی ناقص پالیسیوں اور حکمت عملی سے جمہوریت دشمن عناصر کو اقتدار پر متمکن ہونے کا موقع فراہم کیا۔ کانگریس نے ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ فرقہ پرستی کے سیلاب کو روکنے کےلیے کوئی ’بند‘ بنائے۔ گجرات فسادات، مظفر نگر فسادات اور دہلی فسادات میں کانگریس بلکہ سارا حزب اختلاف ’بے عمل‘ رہا۔ یہ بے عملی ہی ہے جس نے بی جے پی کو آج طاقت بخشی ہے۔ جب تک فرقہ پرستی سے دوبدو لڑائی نہیں لڑی جائے گی، پیگاسس جیسے معاملات پر قابو نہیں پایاجاسکے گا۔ آج ہی کی تین بلکہ چار خبریں مزید ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بوہرہ سماج کے ایک مسلمان سیف الدین کو بے رحمی سے اس لیے پیٹا گیا کہ اس نے ایک ایسی جگہ استنجا کرلیا تھا جہاں پر چند گائے بندھی ہوئی تھیں۔ دہلی میں تو یہ ہوا کہ مہربان علی نام کے ایک نوجوان کو چند لوگوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا اور گجرات میں ایک متنازعہ پوسٹ نے ایسی کشیدگی پھیلائی ہے کہ ایک نوجوان کا قتل ہوگیا اور ایک لڑکی کو چھرا گھونپ دیاگیا ،تین مسلمان گرفتار ہوئے ہیں۔ کشیدگی سخت ہے۔ اور دہلی میں جو مسلم کش فسادات ہوئے تھے ان کا موازنہ امریکہ کے نائن الیون سے کرکے عمر خالد کی، جو اس معاملہ میں گرفتار ہیں، ضمانت کی عرضی کی مخالفت کی گئی۔ دہلی فسادات میں مسلمان مارے گئے، لوٹے گئے اور گرفتار بھی کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور منافرت کے جو واقعات بڑھ رہے ہیں، ان کے خلاف کانگریس اس طرح کیوں نہیں آواز اُٹھاتی جیسے کہ ’’چوکیدار ہی جاسوس ہے‘‘ کہہ کر پیگاسس معاملہ میں اُٹھاتی ہے؟ کیا یہ بے عملی نہیں ہے؟ کیا یہ ان عناصر کو جو ملک میں نفرت کی لہر پھیلانے کے ذمے دار ہیں، چھوٹ نہیں ہے؟ کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتیں جواب دیں کہ ان کی لڑائی فرقہ پرستی کے خلاف کیوں نہیں ہے؟ جنگ اگر لڑنی ہے، اگر فرقہ پرستی کو شکست دینا ہے تو صرف ’منتخب موضوعات‘ پر ہی نہیں، فرقہ پرستی اور اقلیت دشمنی کے خلاف بھی بولنا ہوگا اور تحریک چلانی ہوگی۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر