Latest News

کمال خان کا انتقال، صحافت کے ایک عہد کا خاتمہ، لکھنو کے عیش باغ میں سوگوار ماحول میں تدفین۔

کمال خان کا انتقال، صحافت کے ایک عہد کا خاتمہ، لکھنو کے عیش باغ میں سوگوار ماحول میں تدفین۔
سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقوں میں صف ماتم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی سوگ، یوگی، نقوی، راہل ، پرینکا ، اکھلیش، مایاوتی ،رعنا ایوب، امتیاز جلیل امیر شریعت فیصل رحمانی سمیت اہم ترین شخصیات کی جانب سے تعزیتی پیغامات، ٹوئٹر پر ’الوداع کمال خان ‘ٹرینڈ۔
لکھنو:این ڈی ٹی وی صحافت سے گزشتہ دین دہائیوں سے منسلک کمال خان کا جمعہ ۱۴جنوری کو اچانک انتقال ہوجانے سے پورا این ڈی وی پریوار اورصحافت کی دنیا غمزدہ ہے۔ وہ گزشتہ ۳۰سالوں سے این ڈی ٹی وی سے منسلک تھے اور اپنی مخصوص صحافت کے لیے جانے جاتے تھے۔ وہ چینل کے لکھنؤ بیورو کے سربراہ تھے۔ ابھی جمعرات کو ہی چینل پر اتر پردیش اسمبلی انتخابات پر ان کی رپورٹنگ دیکھی گئی۔ جمعہ کی صبح دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔تین دہائیوں میں انہوں نے سیاست کے کئی مراحل دیکھے اور سامعین کو اپنی سیاسی آنکھوں سے واقعات کا گواہ بنایا۔ انہیں معاشرے کو سمجھنے کے اپنے منفرد انداز اور ممتاز اور معتبر آوازوں میں سے ایک صحافی سمجھا جاتا ہے۔
۶۱سالہ کمال خان کے پسماندگان میں بیوہ روچی اور بیٹا امان ہیں۔ان کی تدفین کورونا پروٹوکول کے سائے میں لکھنو کے عیش باغ قبرستان میں بعد نماز عصرسوگواروں کی موجودگی میں عمل میں آئی۔ کمال خان لکھنؤ میں اپنے خاندان کے ساتھ بٹلر پیلس میں واقع ایک سرکاری بنگلے میں رہتے تھے۔ ان کی شادی صحافی روچی کمار سے ہوئی تھی۔کمال خان ٹی وی کے ان چند صحافیوں میں سے تھے جنہیں بہت پیار اور احترام کے ساتھ دیکھا اور سنا جاتا تھا۔ خبر ایودھیا کی ہو یا کسی غریب کی، روٹی اور چھت کا سوال ہو، سامعین رک کر کمال خان کی رپورٹ دیکھا سنا کرتے تھے۔ ان کی صحافت کے اس خاص انداز نے انہیں نہ صرف لکھنؤ میں بے پناہ مقبولیت دی بلکہ ملک بھر میں ان کے مداح ہیں۔ لکھنؤ سے جب وہ کوئی رپورٹنگ کرتے تھے توان کی آواز دہلی بھی اسی سنجیدگی سے سنی جاتی تھی۔خاص بات تھی راجدھانی دہلی میں رہ کر اقتدار کےمرکز سے صحافت کرنےوالے بہت سے ٹی وی صحافیوں پر کمال خان اپنی خبروں کے منتخب اور زبان کی وجہ سے بھاری پڑتے رہے۔ خاص طور سے نوجوان صحافی انہیں بہت پسند کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی رپورٹ میں، جو وہ پیس ٹو کیمرہ کرتے ہوئے جو تبصرے کرتےتھے بہت سارے نوجوان اسے زبانی یاد کر لیتے تھے۔ کئی بار ان کے تبصرے شاعرانہ ہوتے رہے ،یہ ان کا اپنا انداز ہی تھا جس نے تمام کو سکھادیا کہ صحافت صرف دہلی سے ہی نہیں ہوتی۔ نرمی، شائستگی اور تہذیب کے ساتھ بھی کہی گئی بات سنی جاتی ہے۔
کمال خان کی غیر جانبدارانہ صحافت ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ،مختار عباس نقوی، اروند کیجری وال،کمل ناتھ،امیر شریعت بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، رانا ایوب، راج ببر،ہردیپ سنگھ پوری،نواب ملک، راج دیپ سر دیسائی، ہیمنت سورین، پرینکا گاندھی ، اکھلیش یادو، مایاوتی ، عمران خان(کانگریس)، مشکور احمد(کانگریس)، اخترالاایمان (مجلس ایم ایل اے) سمیت دیگر اہم ترین شخصیات نے ان کی موت پر غم کا اظہار کیا ہے۔ کمال خان کی موت کے بعد ٹوئٹر پرRIP سر ٹرینڈ کر رہا ہے جس پر لوگ کمال خان کو اپنے اپنے انداز میں یاد کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگ کمال خان کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
معروف صحافی رویش کمار نے لکھا کہ ’’پھر کوئی دوسرا کمال خان نہیں ہوگا، ہندوستانی صحافت آج تہذیب سے ویران ہوگئی وہ لکھنو آج خالی ہوگیا جس کی آواز کمال خان کے لفظوں سے کھنکتی تھی۔ این ڈی ٹی وی پریوار آج غمگین ہے، کمال کے چاہنے والے کروڑوں ناظرین کا دکھ جوار بن کر امڈ رہا ہے، الوداع کمال سر‘‘۔این ڈی ٹی وی کے سابق صحافی اور موجودہ ممبر پارلیمنٹ امتیاز جلیل (مجلس اتحادالمسلمین) نے لکھا کہ ’’’’کمال خان مجھ سمیت بہت سے نوجوانوں کے لیے رول ماڈل تھے جو صحافت کو کیریئر لینا چاہتے تھے لکھنوی ثقافت کے عظیم انسان کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ان کا اسکرپٹ اور اس سے بھی زیادہ ان کا P2C بے مثال تھا! اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔‘‘ صحافی آلوک پانڈے نے ٹویٹ کیا اور کہا کہ ‘گہرے دکھ کے ساتھ یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ کمال خان آج صبح انتقال کر گئے ہیں۔وہ طویل عرصے تک لکھنؤ میں ہمارے بیورو چیف رہے ہیں۔ مزید معلومات دستیاب ہونے پر آپ کے ساتھ شیئر کریں گے۔ سینئر صحافی وویک گپتا نے کہا، ’’سابق ساتھی اور سینئر صحافی کمال خان صاحب نہیں رہے‘‘۔صحافت سے جڑی شخصیات نے اُن کی ناگہانی موت کو روشن اور معتبر صحافت کا ناقابل تلافی نقصان بتایا ہے۔
معروف صحافیوں نے کمال خان کے اچانک انتقال پر گہرے غم اور دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے صحافت کے ایک باب کا خاتمہ قرار دیا تو وہیں، کئی دیگر سینئر صحافیوں نے کمال خان کی موت پر ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے انہیں بھرپور خراج پیش کیا ہے۔سماج وادی پارٹی نے اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے ٹویٹ کیا اور کہا، ‘بہت افسوسناک! این ڈی ٹی وی کے سینئر نامہ نگار کمال خان انتقال کر گئے، ناقابل تلافی نقصان۔ خدا مرحوم کی روح کو سکون دے۔ سوگوار خاندان کے افراد سے گہری تعزیت۔ دلی خراج عقیدت۔ صحافی برجیش مشرا نے کہا، ‘مشہور صحافی کمال خان جی کا انتقال بہت افسوسناک ہے۔ ان کی عدم موجودگی صحافتی دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ رات گئے تک اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ سینئر ترین ہونے کے باوجود فیلڈ رپورٹنگ کبھی نہیں چھوڑی۔ خبریں پیش کرنے کے ان کے انداز نے ملک بھر کے صحافیوں کو متاثر کیا۔ الوداع کمال خان۔نامور صحافی کمال خان کے ناگہانی انتقال پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔یونیورسٹی کے اساتذہ اور حکام نے اپنی تعزیت پیش کرتے ہوئے غمزدہ کنبہ سے ہمدری کا اظہار کیا۔

اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا ’’کمال خان ممتاز صحافی اور اچھے انسان تھے جو شہریوں کو عوامی زندگی، سماج اور حکومت سے متعلق بروقت خبریں اور اطلاعات فراہم کرتے تھے جن سے انھیں بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملتی تھی۔ ان کے انتقال پر میں غمزدہ کنبہ اور صحافی برادری سے اپنی گہری ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں‘‘۔اے ایم یو رجسٹرار مسٹر عبدالحمید آئی پی ایس نے کہا’’کمال خان اپنی بریکنگ خبروں سے اپنے معاصرین، سینئرس اور نوجوان نسل کے صحافیوں کو ہمیشہ متاثر کرتے تھے۔ ایک رپورٹر اور بیورو چیف کے طور پر وہ دوسروں کے لئے ایک مثال تھے‘‘۔

سمیر چودھری
DT Network

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر