Latest News

پردہ ہندوستانی تہذیب کی مشترکہ علامت ہے: ڈاکٹر ظفردارک قاسمی۔

پردہ ہندوستانی تہذیب کی مشترکہ علامت ہے: ڈاکٹر ظفردارک قاسمی۔
ہندوستان جیسی مقدس سر زمین پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین جب بھی کسی بھی طرح کی ان بن، نزاع ، توتو میں میں، یا نفرت و بعد قائم ہوتا ہے تو بڑا دکھ ہوتا ہے اور رنج و الم کے نشتر دل میں چبھنے لگتے ہیں۔ جب کہ اس سرزمین کا دامن اتنا کشادہ ہے کہ ایک گاؤں اور محلے میں ہی نہیں بلکہ ایک گلی میں متعدد ادیان، تہذیبوں اور زبانوں کے حاملین مل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود سب مل جل کر رہتے ہیں کسی کو کسی سے شکایت نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ایک دوسرے کے مذہبی ، تہذیبی،رسم ورواج اور لسانی جذبات کا پورا احترام کیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے وطن میں یہ بھی دیکھا ہے کہ جب بھی کسی ہندو کے یہاں کوئی خوشی یا غمی کا موقع آ تا ہے تو مسلمان ،اور اگر کسی مسلمان کے گھر کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو ہندو اس میں شرکت کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔  اس طرح کا توازن اور بھائی چارگی وطن عزیز میں ایک دو دن سے نہیں ہے بلکہ صدیوں سے موجود ہے۔ نفرت اور بیزاری کے اس ماحول میں بھی اخوت اور باہمی رکھ رکھاؤ کی  مثالیں ملتی رہتی ہیں۔ علاوہ ازیں اگر ملک کی تاریخ وتہذیب پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا کہ وطن عزیز کی تعمیر و تشکیل میں مذہب و دھرم سے اوپر اٹھ کر سب نے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔مگراب  ایسا لگتا ہے کہ  ملک کی ان مشترکہ اقدار کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ ملک میں نفرت و عداوت کا گہرا دھواں چھا چکا ہے ، ہر طرف نفرت اور بیزاری کی صدائیں سن نےکو مل رہی ہیں۔ ذرا ذرا سی باتوں کو مذہب کی عینک لگا کر دیکھا جانے لگا ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جارہاہے۔ جو سرزمین اشتراک و اجتماعیت اور باہمی اتحاد کی شاندار مرکز ہے، آ ج اس سرزمین پر ہمہ ہمی اور تیرا میرا کا درس دیا جارہا ہے ۔ ہمارے سیاسی رہنما اور ہمارے ملک کا میڈیا یعنی جمہوریت کا چوتھا ستون تو اپنے مفادات کی خاطر اس معاملے کو مزید طول دے رہا ہے ۔یہی نہیں بلکہ صرف یہ ہندوستانی معاشرے کی خصوصیت ہے کہ یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں میں سماجی سطح پر بہت ساری چیزوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر ہم حجاب یا پردہ کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا رواج اور چلن ہندوؤں اور مسلمانوں میں خوب پایا جاتا ہے۔ عموماً ہندوستانی سماج میں گھونگھٹ کرنے کا رواج ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ برادران وطن کے یہاں جب کسی کی شادی ہوتی ہے تونئی نویلی دلہن اپنے گھر کی بزرگ شخصیات سے پردہ یا گھونگھٹ کرتی ہے۔ بعینہ یہی رواج مسلمانوں میں بھی ہے ۔ حتی کہ اگر کوئی نئی نویلی دلہن اپنے گھر کے بزرگوں سے پردہ نہیں کرتی ہے تو اسے سماج میں اچھا تصور نہیں کیا جاتاہے۔ ہندو خواتین اور مسلم خواتین دونوں کے یہاں پردہ کرنے کا رواج ہے۔ اس لیے اس وقت کرناٹک میں حجاب کو لے کر جو اتھل پتھل ہورہی ہے اس کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے بلکہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نظر سے دیکھا جائے تو صحیح صورت حال سمجھ میں آ سکے گی۔ برقعہ، حجاب یا پردہ کو کچھ سماج دشمن عناصر فوبیا بناکر پیش کررہے ہیں، جبکہ کہ برقعہ ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم کسی بھی مسئلہ کو جانبداری یا طرفداری سے دیکھتے ہیں۔ حجاب کو بھی ہم نے ایک مخصوص طبقہ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا اور اس کی مخالفت کرنا شروع کردی۔ اگر ہم ہندوستانی تناظر اور ہندوستانی تہذیب کا حصہ سمجھیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پھر ہماری سوچ وفکر کا زاویہ الگ ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ پردہ کی روایت اور تعلیمات ، اسلام کے علاوہ دنیا کے تمام ہی مذاہب میں ملتی ہیں اور باقاعدہ  اس کی رعایت موجود  ہے ، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ  ہندو مذہب میں سیتاجی کو ایک آئیڈیل خاتون مانا گیا ہے، جنھوں نے دشمنوں کے بیچ رہ کر بھی اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کی اور اپنی آبرو پر کوئی دھبہ لگنے نہیں دیا، سیتا جی کے بارے میں ہندو مذہبی گرنتھوں میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ جب شری رام جی کے بھائی لکشمن کو کہا گیا کہ وہ سیتا جی کا چہرہ دیکھ کر ان کو پہچانیں تو انھوں نے کہا کہ میں نے کبھی اپنی بھاوج کے قدموں سے اوپر نگاہ نہیں اُٹھائی اور ان کا چہرہ نہیں دیکھا ، چنانچہ انھوں نے سیتا جی کے پازیب دیکھ کر ان کو پہنچانا ،اسی لئے عام طور پر ہندو بھائیوں کے یہاں دیویوں کی تصویر اس طرح بنائی جاتی ہے کہ ان کا سارا بدن سوائے چہرہ کے ڈھکا ہوتا ہے اور سرپر آنچل ہوتا ہے ، ہندوؤں کے بہت سے خاندانوں میں عورتوں کے گھونگھٹ لٹکانے کا قدیم رواج رہا ہے  ، یہ گھونگھٹ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سر ، چہرہ اور سینہ کا حصہ اچھی طرح چھپ جاتا ہے، ہندوؤں کے مقدس گرنتھوں، شاستروں، اپنشدوں اور ویدوں میں بھی اس کا  باقاعدہ ثبوت موجود ہے۔ چنانچہ رگ وید میں مذکور ہے: 
"چوں کہ برہم (خدا) نے تمہیں عورت بنایا ہے ؛ اس لئے اپنی نظریں نیچی رکھو، اوپر نہیں ، اپنے پیروں کو سمیٹے ہوئے رکھو ، اور ایسا لباس پہنو کہ کوئی تمہارا جسم دیکھ نہ سکے "
بالائی سطروں کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے عرض کی جاسکتی ہے کہ پردہ کا نظام جس طرح دین اسلام میں پایا جاتا ہے اسی طرح ہندو دھرم میں بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی بات یہ ہے کہ پردہ ہماری مشترکہ تہذیب اور ہندوستانی سنسکرتی کے فروغ و بقاء کی واضح علامت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی خصوصیت یہ ہے کہ ملک کے تمام باشندے خواہ وہ کسی بھی دھرم، فکر، نظریہ اور تہذیب سے وابستہ ہو ں انہیں اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت سے والہانہ لگاؤ ہوتا ہے ۔ پردہ، گھونگھٹ یا برقعہ بھی ہندوستانی تہذیب کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ 
در اصل جب ہماری سوچ وفکر میں تنگی اور تشدد داخل ہوتا ہے یا ہم کسی ان جانے  خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر معاشرے میں بہت سارے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ آ ج اسلام کے متعلق جو کچھ ہمارے سامنے پیش کیا جارہا ہے یا جو ہمیں بتایا جارہاہے سچ یہ ہے کہ وہ اصل اسلام ہے ہی نہیں۔ کیونکہ اس کی کئی وجوہات ہیں ان میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ آ ج اسلام کو مغربی میڈیا میں جس طرح پیش کیا جارہاہے  اس نے اسلامو فوبیا کو بڑھاوادیا دیا ہے ، اسلامی تعلیمات کو لگاتار دانستہ طور پر متشدد اور انتھا پسند بتایا جارہا ہے۔اس نے جو منفی فکر پیدا کی اور اسلام کے خلاف جو ماحول تیار کیا اس کا اثر صرف یورپ میں ہی نہیں ہورہا ہے بلکہ اب پوری دنیا میں محسوس کیا جارہاہے۔ یقینا اسلام کے خلاف یہ رویہ نہایت افسوسناک ہے ۔ دکھ اور درد کی بات یہ ہے کہ بڑھتے اسلاموفوبیا کے خلاف مسلمانوں نے کہیں بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی ، اگر کیے بھی تو مظاہرے کیے، احتجا جات درج کرائے، روڈوں اور سڑکوں کو جام کیا اور پھر خاموش ہوگئے ۔ یقین جانیے اس کا بھی منفی اثر ہوا اور ہمارے مظاہروں نے بھی عالمی سطح پر مسلم کمیونٹی کی عظمت کو مخدوش و مجروح کیا۔ جب کہ باضابطہ اسلامو فوبیا کے خلاف  کام کرنے کی ضرورت تھی اور آ ج بھی ہے ۔ کیا کیا جائے ہماری قوم جذباتی تقریریں سننے، اشتعال انگیز بیانات دینے کی عادی ہے۔  اس لیے ہمیں اس پر فوری طور پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے؟ البتہ بھارت جیسے تکثیری سماج میں کسی بھی مذہب کے خلاف منفی فکر و رجحان پروان چڑھنا تو بالکل ہی مناسب نہیں ہے۔ اگر یہاں بھی کسی خاص مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو پھر یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہاں بھی اسلامو فوبیا اور حجاب فوبیا کے لوگ شکار ہیں۔ اس لیے فوری طور پر ہمیں اس جانب توجہ دینی ہوگی۔ ہندوستانی عوام کو اسلامو فوبیا کے خوف سے باہر آ نے کی ضرورت ہے۔ آ ج حجاب یا پردہ کی جو لوگ مخالفت کررہے ہیں وہ بھلے ہی اسلام کا حکم سمجھ کر کررہے ہیں، لیکن انہیں یہ بات ہر گز نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہندوستانی تہذیب اور اس کی روح کو بھی مخدوش کررہے ہیں۔ پردہ ایک ایسی مشترکہ تہذیب ہے جو ہندوستانی معاشرے میں صدیوں سے پائی جاتی ہے۔ 
یہاں یہ بتانا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ بھی حجاب کو لے کر سیاسی روٹیاں سیکنا چاہتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی دھرم سے ہو وہ نہ صرف ان بچیوں یا مسلم کمیونٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ وہ ہندوستان کی بیٹیوں اور بچیوں کو تعلیم و تحقیق سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ بچیاں ہندوؤں کی ہوں یا مسلمانوں کی جب وہ پڑھتی ہیں، آ گے بڑھتی ہیں تو پھر وہ اپنے خاندان یا والدین کے لیے ہی باعثِ فخر نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ پورے ملک کا سر فخر سے بلند کرتی ہیں۔ جب ہم تعلیم کے فروغ میں یکساں خدمات انجام دیں گے اسی وقت وزیر اعظم کا نعرہ " بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی بچاؤ " شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ اسی کے ساتھ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ تہذیب کسی بھی معاشرے کی ہو ، اس کا تعلق کسی بھی دھرم کے ماننے والوں سے ہو وہ کمیونل نہیں ہوتی ہے بلکہ تہذیب تو تہذیب ہوتی ہے اس کے بقاؤ احترام سے معاشرتی سطح پر توازن و اعتدال اور میانہ روی قائم ہوتی ہے۔ برداشت وتحمل کی فضا سازگار ہوتی ہے جبکہ پردہ تو کسی خاص کمیونٹی کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستانی ثقافت کی مشترکہ میراث ہے اس کا تحفظ جتنا مسلمانوں کو کرنا چاہیے اتنا ہی ہندوؤں کو بھی کرنا چاہیے تبھی ہم اپنی مشترکہ قومی روایت و شناخت کو محفوظ کر پائیں گے۔ 
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اوچھی سیاست کرنے والوں کے شکار آ خر ہم کیوں ہوجاتے ہیں؟ یاد رکھئے سیاست داں سیاست داں ہوتا ہے اسے اپنے مفادات کے آ گے کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ سیاسی فائدہ کیسے حاصل کیا جائے، کس قوم، کمیونٹی اور دھرم کے لوگوں کو ٹارگیٹ کیا جائے۔ اگرہمیں اور آ پ کو ہندوستان سے نفرت کو ختم کرنا ہے، محبت، پیار اور خلوص ووفا کو فروغ دینا ہے تو مل کر ان قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور ان نظریات و افکار کو معدوم کرنا ہوگا جو بھارت کی عظمت رفتہ اور یہاں کی صدیوں پرانی قدروں، بقائے باہم کی روایات کو روند نا چاہتے ہیں۔موجودہ حجاب کے تنازع پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سیاست کا حصہ ہے اور کچھ لوگ اسے بنیاد بنا کر سیاسی کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کے باشندوں کو یہ چیز سمجھنی ہوگی۔ آ خر میں یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ میں ان قوموں اور معاشروں کے کارنامے جلی حروف میں لکھے جاتے ہیں جن کی سوچ وفکر متوازن اور معتدل ہوتی ہے۔ برعکس ان معاشروں اور قوموں کو صفحہ تاریخ سے مٹا دیا جاتا ہے جو روایتی فکر کی اسیر اور فکری پستی کی شکار ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں ہم ہندوستانی معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ پوری طرح روایتی باتوں کا مقلد اور تعقل و تدبر سے عاری ہے۔ اسی وجہ سے سماج میں جذباتیت اور لاشعوری بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملک کی سلامتی اور جمہوریت کی بقاء کے لیے  مشترکہ جدو جہد کرنی ہوگی اور نفرت و عداوت کے ماحول کو فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا ملک آ گے بڑھ سکے۔

(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات سنی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ ہیں)
zafardarik85@gmail.com

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر