Latest News

اپنا ہاتھ جگن ناتھ: محمود احمد خاں دریابادی

اپنا ہاتھ جگن ناتھ: محمود احمد خاں دریابادی
آخر کار روس نے یوکرین پر حملہ کر ہی دیا ـ امریکہ نے ایک بار پھر دغا بازی کی، یوکرین کو امید تھی کہ امریکہ سمیت دیگر معاونین  وعدے کے مطابق اس کی مدد کو آئیں گے، روس سے مقابلہ کریں گے مگر ......... ؟ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے! 

    دراصل یوکرین سمیت اس علاقے کے کئی ممالک ایک زمانے میں سوویت روس کا حصہ تھے، افغانستان میں منہ کی کھانے کے بعد حالات کچھ ایسے بنے کہ امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے  سوویت روس کے حصے بخرے کروادئیے، کہا جاتا ہے کہ سوویت روس کا آخری سربراہ گورباچوف خود امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ تھا ـ .......... کئی حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد روس معاشی طور پر تو کمزور ہوگیا مگر جدید ٹکنالوجی اور سوویت کے زمانے کے ہتھاروں اور ایٹم بم کی وجہ سے عسکری طور پر ہمیشہ مضبوط رہا ہے ـ 

     ادھر امریکہ نے روس کی معاشی کمزوری کا فائدہ اٹھایا اور اُس کے پڑوسی ممالک جو کل تک اسی کا حصہ تھے ان کو مراعات دے کر اپنے قریب کرنے کی کوشش کرنے لگا، وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے اور میزائیل نصب کرنے تیاری کرنے لگا ـ ظاہر ہے روس معاشی طور پر کمزور سہی لیکن وہ اپنے بالکل پڑوس میں دشمن کے اڈے کیوں برداشت کرتا، اس نے اعتراض کیا، ........... امریکہ نے یوکرین کو یقین دلایا کہ روس تم پر حملہ کرنے کی ہمت ہی نہیں کرے گا، اگر اس نے ایسی ہمت کی بھی تو امریکا اور دیگر ناٹو ممالک اُس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، بلکہ امریکہ نے وعدہ کیا کہ بہت جلد تم کو ناٹو میں شامل کیا جائے گا ـ 

    ناٹو دراصل امریکہ کی سرکردگی میں ایسے تیس ممالک کی تنظیم ہے جن کے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ ہم میں سے کسی ایک کی جنگ سب کی جنگ ہوگی اور کسی ایک پر بھی حملہ سب پر حملہ تصور کیا جائے گا اور سب مل کر دشمن سے جنگ کریں گے ـ یہی وجہ ہے کہ عراق اور افغانستان پر حملے میں امریکہ سمیت تمام ناٹو کی افواج شامل تھیں ـ ............ روس نے جب یہ سنا کہ یوکرین ناٹو میں شامل ہونے والا ہے تو وہ اور تلملایا اور اس نے سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کردیں، پچھلے کچھ سالوں میں روس نے اپنے معاشی حالات بھی درست کرلئے، روس کے باس جدید ہتھیار سازی کی انڈسٹری ہے، قدرتی گیس کے ذخائر ہے، بہترین ٹکنالوجی ہے، یہ سب  وہ دنیا بھر کے ممالک کو معقول معاوضے پر فراہم کرتا ہے، بہت سے ناٹو ممالک جرمنی وغیرہ بھی روس سے گیس خریدنے پر مجبور ہیں، .......  اسی لئے روس ایک گیس کی پائپ لائن ایسی بنانا چاہتا ہے جو یوکرین سے ہوکر چین جائے گی، جس سے چین اور قریب کے دیگر خواہشمند ممالک کو سستی گیس فراہم ہوسکےگی، ظاہر ہے جب سستی گیس مل رہی ہے تو کون سا بے وقوف ملک ہے جو محض امریکہ کی ہمدردی میں مہنگی گیس خریدنا پسند کرے گا ـ 
  
  امریکہ کے دباو میں یوکرین نے اپنے علاقے سے اس پائپ لائن کے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ـ آخر کار تنگ آکر روس نے یوکرین کو آخری وارننگ دی کہ یوکرین ہمارے پڑوس میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے سے باز آجائے ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہے ـ امریکی شہ پر یوکرین نے بھی چھپن انچ کا سینہ پھلا کر روس کو للکارا، ادھر امریکہ نے بھی یوکرین پر حملے کی صورت برے نتائج کی چیتاونی جاری کی، یوکرین نے پھر روس کو دیکھ لینے کی دھمکی دی مگر ......... ؟

    جب حملہ ہوا تو وہی ہوا جو ہوتا رہا ہے، امریکہ صرف زبانی جمع خرچ تک ہی رہ گیا، روس نے اطلاعات کے مطابق چند گھنٹوں میں یوکرین کے تمام ہتھیار نہ صرف تباہ کردیئے بلکہ کئی اھم علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا ہے، یوکرین کے صدر کو ٹی وی پر آکر یہ کہنا پرا کہ امریکا اور ناٹو نے ہم کو تنہا چھوڑ دیا ہے ـ  روس چاہتا تو سارے یوکرین پر قبضہ کرلیتا مگر آج کے زمانے میں کسی ملک پر زمینی قبضہ کرلینا بین الاقوامی طور پر اچھا نہیں سمجھاجاتا، آج کل بڑی طاقتیں کسی ملک پر زمینی قبضے کے بجائے وہاں اپنے نمک خواروں کو سربراہ بناکر معنوی قبضے کو بہتر تصور کرتی ہیں، جیسا کہ بہت سے ممالک میں امریکہ اپنے گرگوں کو کرسی پر بیٹھا کر حکومت کررہا ہے ـ روس کا بھی یوکرین کے سلسلے میں کچھ ایسا ہی ارادہ ہے ـ

    امریکہ اب یوکرین کو مرنے کے لئے اکیلا چھوڑ کر قوام متحدہ میں مذمتی قرارداد اور روس کے خلاف سخت معاشی پابندیوں کی بات کررہا ہے، سب جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ نام کی جو شئی پائی جاتی ہے اس کی حیثیت چند بڑی طاقتوں کی لونڈی سے زیادہ نہیں ہے، یہ ادارہ صرف کمزور ممالک کے استحصال اور اپنے مالکوں کے مفادات کاتحفظ ہی کرتا ہے، چند طاقتور ممالک جن کو ویٹو پاور حاصل ہے وہ اس ادارے کے مالک ہیں .......... مزے کی بات یہ ہے کہ اس بار اقوام متحدہ کے مالکوں میں ہی جنگ چھڑگئی ہے، اس لئے اگر سلامتی کونسل میں روس کے خلاف کوئی قرارداد پیش ہوتی بھی ہے تو خود روس اس کو ویٹو کردے گا، اگر دنیا کی شرم رکھنے کے لئے روس نے خود ویٹو نہیں کیا تو اپنے قریبی دوست چین سے ویٹو کرادیگا، قصہ ختم ـ ...... ویٹو وہی ہتھیار ہے جس کے ذریعئے امریکہ نے اب تک نہ جانے کتنی بار مظلوم فلسطینوں اور دیگر کمزور اقوام کا استحصال کیا تھا، اس بار وہی ہتھیار خود اس کے خلاف استعمال ہوگا، اسی کو ہمارے یہاں مناظروں کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ........
         لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

    اب معاشی پابندیوں کی بات بھی کرلی جائے، روس کوئی، ایران، عراق اور افغانستان جیسا ملک نہیں ہے جن پر معاشی پابندیاں اثر انداز ہوسکیں، افغانستان جیسی نوزائدہ حکومت بھی اب تک ایسی پابندیوں کو جوتے کی نوک پر مار رہی ہے، پھر روس تو معاشی طور پر اتنا مستحکم ہوچکا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ زر مبادلہ اس وقت روس کے پاس ہے، دوسری طرف ٹکنالوجی اور گیس کے ذخائر اس کے پاس اتنے ہیں کہ وہ مناسب قیمت پر دنیا بھر میں سپلائی کرتا ہے، مثلا جرمنی روس سے سستی گیس نہ خریدے تو اس کی پوری اکنامی گڑبڑا سکتی ہے، اسی لئے ناٹو کا رکن ہونے کے باوجود جرمنی روس پر بہت زیادہ پابندیوں کی حمایت نہیں کرتا، ....... اگر ایسا ہوا تو ناٹو میں پھوٹ بھی پڑسکتی ہے ـ آخر ہر ملک کو اپنا مفاد ہی سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے ـ

   بہر حال اب یوکرین میں روس کی پسندیدہ حکومت کا قائم ہونا یقینی ہے، موجودہ حکومت جو آج بھی بظاہر محاذ پر ڈٹے رہنے کا دعوی کررہی ہے مگر حالات یہ بتاتے ہیں کہ یا تو جلد ہی یہ حکومت روس کی تمام باتیں ماننے پر مجبور ہوگی یا پھر روس کے زیر اثر نئی حکومت آئے گی ـ 

    بہر حال جنگ بہت بری چیز ہے، اس میں یوکرین کا تو نقصان ہوگا ہی، خود روس بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں پائے گا، دیہاتی لوگ ایک مثل بیان کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ سامنے والا کتنا ہی کمزور ہو تم چار گھونسے ماروگے تو دو عدد گھونسے تو وہ بھی مارے گا، اگر نہ مار پایا تو لپٹ کر کسی نازک جگہ پر کاٹ بھی سکتا ہے ـ...... ....... ساتھ ہی  دنیا کو بھی اس جنگ کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے، تیل اور گیس کے دام ہرحاَل میں بڑھیں گے جن کی وجہ سے تمام ضروریات زندگی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوگا اور مہنگائی سے بے حال غریب عوام مزید بدحال ہوجائے گی ـ
  
  روس اور یوکرین کی اس لڑائی سے چند باتیں مزید ظاہر ہوتی ہیں ـ ایک تو یہ کہ امریکا اب دنیا کا تنہا سوپر پاور نہیں رہا ـ دوسرے یہ کہ جب تک اپنے بازوؤں میں طاقت نہ ہو محض کسی پر اعتماد کرکے جنگ میں نہیں کود پڑنا چاہیئے، بلکہ حکمت اور مصلحت سے جنگ کو اس وقت تک ٹالنا چاہیئے جب تک خود میں مقابلے کی قوت نہ آجائے ـ اس وقت روس اور یوکرین میں مفادات اور بقا کا مقابلہ ہے، روس یہ جنگ اپنے مفادات کے لئے کررہا ہے جبکہ یوکرین کے لئے یہ جنگ بقا کی جنگ ہے، ظاہر جب ہم زندہ اور سلامت رہیں گے تب ہی اپنے فائدے اور نقصان کی فکر کر پائیں گے ـ یہ اصول ایک تنہا فرد اور ایک ریاست دونوں کے لئے برابر کی اہمیت رکھتا ہے ـ آخری بات یہ کہ فرصت اور عافیت کے وقفے کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی کمزوریوں کو دور کرکے اپنے مفادات کے حصول اور ان کو محفوظ رکھنے کی قوت پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہنا چاہیئے جیسا کہ روس نے کیا ہے ـ
  
اس پورے مضمون کا خلاصہ اگر ایک جملے میں بیان کرنے کو کہا جائے تو یوں ہوگا کہ 
      " کوئی تنہا فرد ہو یا کوئی قوم یا کوئی ریاست، سب کو اپنی لڑائی خود ہی لڑنی پڑتی ہے ـ "
     
   محمود احمد خاں دریابادی 
       26 فروری 2022 ء

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر