Latest News

نوپور شرما پر سپریم کورٹ کا تبصرہ افسوسناک،عدالت عظمی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے،117سابق ججوں، بیورکریٹس اور فوجی سربراہان کا چیف جسٹس آف انڈیا کوکھلا خط، تبصرےواپس لینے کے مطالبہ۔

نوپور شرما پر سپریم کورٹ کا تبصرہ افسوسناک،عدالت عظمی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے،117سابق ججوں، بیورکریٹس اور فوجی سربراہان کا چیف جسٹس آف انڈیا کوکھلا خط، تبصرےواپس لینے کے مطالبہ۔ 
نئی دہلی: نوپور شرما پر سپریم کورٹ کے ذریعہ کئے گئے تبصرہ کی سابق ججوں نے تنقید کی ہے اور ہندوستان کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر اس کی شکایت کی ہے۔ کیرالہ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس رویندرن کے خط پر ۱۵ریٹائرڈ جج، ۷۷ریٹائرڈ نوکرشاہ ،۲۵ریٹائرڈ فوجی افسران نے دستخط کرکے، ان کے اسٹیٹمنٹ کی حمایت کی ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ نوپور شرما نے اپنے خلاف ملک کی الگ الگ ریاستوں میں درج سبھی معاملات کو ایک ساتھ کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔نوپور کی عرضی پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردیوال کی بینچ نے زبانی تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا بیان ملک بھر میں آگ لگانے کیلئے ذمہ دار ہے۔ اس تبصرہ کے بعد روزانہ الگ الگ تنظیمیں چیف جسٹس کو خط لکھ کر شکایت کررہی ہیں۔
 کیرالہ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس پی ایم رویندرن نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اس تبصرہ سے سپریم کورٹ نے لکشمن ریکھا پار کردی ہے ۔ ان کے اس خط پر عدلیہ ، نوکرشاہی اور فوج کے ۱۱۷سابق افسران اور ججوں کے دستخط ہیں ۔سابق جج جسٹس پی این رویندرن کے خط میں لکھا ہے کہ ہم ذمہ دار شہری کے طور پر بھروسہ کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی جمہوریت تب تک برقرار نہیں رہے گی، جب تک سبھی ادارے آئین کے مطابق اپنے فرائض پر عمل نہیں کریں گے ۔ سپریم کورٹ کے دو ججوں نے اپنے حال کے تبصرے میں لکشمن ریکھا پار کی ہے اور ہمیں یہ بیان جاری کرنے کیلئے مجبور کیا ہے ۔ دونوں ججوں کے تبصرے نے لوگوں کو حیران کردیا ہے ۔ یہ تبصرے جوڈیشیل آرڈر کا حصہ نہیں ہیں ۔ ایک فرد پر ملک کی کئی ریاستوں میں درج مقدمات کو ایک جگہ جمع کروانا اس کا قانونی حق ہے۔اس کے علاوہ جموں و کشمیر کی ایک تنظیم فورم فار ہیومن رائٹس اینڈ سوشل جسٹس نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ کر نوپور شرما پر سپریم کورٹ کے تبصرہ کی تنقید کی ہے ۔ سپریم کورٹ نے یکم جولائی کو بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کچھ تبصرے کئے تھے ۔ حالانکہ آرڈر کی کاپی میں ان کا ذکر نہیں تھا ۔ بار اینڈ بینچ نے جسٹس سوریہ کانت کو کوٹ کیا کہ ‘جس طرح سے نوپور شرما نے پورے ملک میں جذبات کو بھڑکایا ہے، ملک میں جو ہورہا ہے اس کیلئے یہ خاتون ذمہ دار ہے ، ہم نے مباحثہ دیکھا کہ انہیں کیسے اکسایا گیا ، انہیں پورے ملک سے معافی مانگنی چاہئے ۔جسٹس سوریہ کانت نے نوپور شرما کو پھٹکا لگاتے ہوئے کئی دیگر تبصرے بھی کئے اور کہا کہ انہیں ٹیلی ویزن پر آکر پورے ملک سے معافی مانگنی چاہئے ۔ دو صفحے کے اس کھلے خط پر دستخط کرنے والوں میں کیرل ہائی کورٹ کے جسٹس پی ایس رویندر، بامبے ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس شتیز ویاس، گجرات ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایس ایم سونی، راجستھان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس آر ایس راٹھور اورپرشانت اگروال، دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے ایس ڈھینگرا بھی شامل ہیں۔ سابق آئی اے ایس افسر آر ایس گوپالن اور ایس کرشنا کمار، سفیر(ریٹائرڈ) نرنجن دیسائی، سابق ڈی جی پی ایس پی وید، بی ایل ووہرا، لفٹننٹ جنرل وی کے چترویدی، نے بھی دستخط کیے ہیں ان لوگوں نے کہاکہ نوپور کے معاملے میں سپریم کورٹ کے ججوں کے تبصرہ عدالتی اقدارورویات سے میل نہیں کھاتے ہیں۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ عدالتی تاریخ میںایسی افسوسناک تبصرہ کبھی نہیں ہوا تھا، یہ سب سے بڑی جمہوریت کی عدالتی نظام پر دھبے کی طرح ہے، جنہیں فوری درست کرنے کی ضرورت ہے کیو ںکہ اس کی وجہ سے جمہوری اقدار اور ملک کی سیکوریٹی پر سنگین اثر پڑسکتا ہے ، ان تبصروں کا کیس سے لینا دینا نہیں تھا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر