Latest News

مدارس کا سروے: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ پہنچی سروے ٹیم نے دو گھنٹے تک کی جانچ پڑتال، مالی امداد کے متعلق بھی کئے سوالات۔

مدارس کا سروے: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ پہنچی سروے ٹیم نے دو گھنٹے تک کی جانچ پڑتال، مالی امداد کے متعلق بھی کئے سوالات۔
لکھنؤ : اتر پردیش میں مدارس کے سروے کا عمل شروع ہو چکا ہے اور دھیرے دھیرے ہر چھوٹے و بڑے مدارس میں سرکاری افسران پہنچ رہے ہیں ۔ 15 ستمبر کی صبح ہندوستان کے بڑے اور تاریخی مدارس میں شمار دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں انتظامیہ کی ٹیم سروے کے لیے پہنچی۔ افسران کے پہنچتے ہی وہاں ندوۃ کے مینجمنٹ سے جڑے لوگوں اور مقامی میڈ یا اہلکاروں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ 
سروے ٹیم نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے الگ الگ محکموں میں تقریباً دو گھنٹے تک جانچ پڑتال کی اور کچھ ضروری دستاویزات کھنگالے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق سروے ٹیم میں ایس ڈی ایم، بی ایس اے اور ڈی ایم او وغیرہ شامل تھے۔ 
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت چل رہے اس مشہور مدرسہ کے چانسلر مولانا سید رابع حسنی ندوی ہیں، جو کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موجودہ صدر بھی ہیں۔ بورڈ نے پہلے ہی اتر پردیش حکومت کی طرف سے غیر منظور شدہ مدارس کے سروے پر اعتراض کرتے ہوۓ اسے غیر آئینی قراردیا ہے۔ بہر حال دارالعلوم ندوۃ العلماء کے وائس پرنسپل عبدالعزیز ندوی نے مدرسہ کے سروے سے متعلق بات کرتے ہوۓ کہا کہ حکام سے چھپانے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہم اسے چندہ سے چلاتے ہیں، جو کچھ حکام نے مانگا تھا وہ انھیں فراہم کر دیا گیا ہے۔ ایک میڈیارپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سروے کی ٹیم نے مدرسہ میں بچوں کی پڑھائی سے لے کر ان کی رہائش، کھانے پینے کے انتظامات اور دیگر سہولیات کا جائزہ لیا۔ اس دوران مدرسہ کو ملنے والی مالی امداد کے بارے میں بھی سوال کیا گیا۔ مدرسہ کے ذمہ داران سے سوال کیا گیا کہ انھیں فنڈنگ کہاں کہاں سے ملتی ہے اور اس کا استعمال کس طرح کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں بڑی تعداد میں غیر ملکی طلبا بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس مدرسہ کی شہرت عالمی سطح پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ دور دور سے طلبا اسلامی تعلیمات حاصل کرنے کے مقصد سے یہاں پہنچتے ہیں۔ بیرونی طلب میں بیشتر کاتعلق انڈونیشیا، فلپائن اورخلیجی ممالک سے دیکھنے کوملتا ہے یہ بھی طالب علم باضابطہ اور حکومت ہند کی منظوری کے بعد ہی داخلہ حاصل کر پاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی گھنٹوں کی پوچھ کچھ اور دستاویزات کی چھان بین کے بعد افسران مطمئن ہو کر گئے کہ یہاں کوئی ہے ضابطی یا غیر قانونی نہیں ہے نیز عصری علوم کا بھی نظم ہے۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر