نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے مہاراشٹرا کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کی جانب سے شیوسینا کے انتخابی نشان تیر اور کمان کے استعمال پر پابندی لگانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواست کو خارج کر دیا ہے۔ منگل کو جسٹس سنجیو نرولا کی بنچ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ وہ ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے گروپوں کے درمیان انتخابی نشان کے تنازعہ کو جلد از جلد حل کرے۔سماعت کے دوران ادھو ٹھاکرے کی جانب سے الیکشن کمیشن کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ تیس سال سے شیوسینا چلا رہے ہیں، لیکن آج اپنے والد کا نام اور انتخابی نشان استعمال نہیں کر سکتے۔ ادھو ٹھاکرے کی جانب سے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے حکم کا ٹھاکرے اور ان کی سیاسی پارٹی پر شدید اثر پڑا ہے اور الیکشن کمیشن کا حکم غیر قانونی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ ٹھاکرے کے حقوق اور تنازعہ اب بھی کھلا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ ضمنی انتخاب کے لئے صرف عبوری حکم نامہ جاری کیا گیا تھا جو اب ختم ہو گیا ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ ٹھاکرے کے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو جلد از جلد اس معاملے کا فیصلہ کرنے کی ہدایت دینا مناسب ہوگا۔ایکناتھ شندے کے گروپ نے اس معاملے میں دہلی ہائی کورٹ میں اپیل بھی داخل کی تھی۔ شندے گروپ نے کہا کہ کوئی بھی حکم دینے سے پہلے ان کے دلائل بھی سنے جائیں۔اس فیصلے پر وزیر اعلی ایکناتھ شندے نے کہا کہ میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔شیوسینا میں بغاوت کے بعد ایکناتھ شندے گروپ اور ادھو ٹھاکرے گروپ کے درمیان 'شیو سینا کے نام اور 'تیر کمان کے نشان کو لے کر تنازعہ ہوا تھا۔ اس دوران یہ تنازع سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ سپریم کورٹ نے پارٹی کے نام اور نشان کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو دیا تھا۔ اس کے مطابق دونوں گروپوں کے تحریری بیان اور ثبوت کی بنیاد پرمرکزی الیکشن کمیشن نے ۸؍ اکتوبر کو شیو سینا کے نام اور کمان اور تیر کے نشان کو عارضی طور پر منجمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شیوسینا کے ادھو ٹھاکرے دھڑے نے اس فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔شیوسینا کے ایم پی سنجے راوت نے الیکشن کمیشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ہماری درخواست کو خارج کر دیا ہے۔ لیکن یہ ہمیں اس طرح عدالتی لڑائیوں میں الجھانے کی سازش ہے۔ پھر بھی شیوسینا اور ہمارے ساتھی عزم کے ساتھ اس جنگ کو لڑ رہے ہیں۔ ہماری درخواستوں میں سے ایک کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ لیکن عزم اور جدوجہد مستقل ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کمیشن کسی قسم کا تعصب نہ دکھائے۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو بھی کہا ہے کہ وہ جلد از جلد فیصلہ کرے۔ ہمیں ہائی کورٹ، سپریم کورٹ جانے اور انصاف مانگنے کا حق ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کس طرح دباؤ کی سیاست چل رہی ہے۔ لیکن ہم دوبارہ الیکشن کمیشن کے پاس جائیں گے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ لینے کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی یہی کہا۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ ہمارے کمان اور تیر کی علامت کو منجمد کر دیا گیا؟ ہم سے الگ ہونے والے دھڑے نے دعویٰ کیا کہ وہ کمان اور تیر کا نشان چاہتے ہیں کیونکہ وہ اندھیری ضمنی انتخاب لڑنے جا رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے الیکشن نہیں لڑا۔
0 Comments