Latest News

قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج جاری، ترکی کے انقرہ سمیت مختلف شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل پڑے، صلیبی پرچم نذرآتش، ترکی نے ۱۲۰ ملکوں میں موجود سفارت کاروں کو متحرک کردیا، سویڈن کے وزیر اعظم نے واقعے کی مذمت کی۔

استنبول۔۲۳؍ جنوری: اسلام مخالف سویڈش ڈینش سیاست داں راسمس پالوڈن کے ذریعہ ہفتے کے روز اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے سامنے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کونذر آتش کرنے کے خلاف پاکستان، ایران اور ترکی سمیت کئی اسلامی ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ سمیت مختلف شہروں میں ہزاروںافراد نے سوئیڈن کے مکروہ فعل کیخلاف احتجاجی مظاہرے کئے، استنبول میں سوئیڈش قونصلیٹ کے باہر سیکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی ، اس موقع پر اسلام مخالف سوئیڈش کارکن کا پتلا بھی جلایا گیا ، مظاہرین نے سوئیڈش حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ اسلاموفوبیا کی حمایت کررہی ہے ۔ اس دوران مظاہرین کی جانب سے سویڈن کا صلیبی جھنڈا بھی جلایا گیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
ادھر آیا اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے سامنے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے سے متعلق آیا صوفیہ کے خطیب اور ترک مذہبی امور کے وزیر علی ارباش نے پیر کومیڈیا کے سامنے کہا کہ ’’ہم اپنے محکمہ مذہبی امور کے ۱۲۰ممالک میں موجود اتاشی کےدفاتر کے توسط سے عدالتوںمیں درخواست دیتے ہوءئے کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔علی ارباش نےانقرہ میں میڈیا تنظیموں کے نمائندوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ وہ یورپ کے دانشوروں کو کال کرنے کے لیے ان کے خطوط تحریر کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے اس خط کو مختلف شعبوں کے نمائندوں تک پہنچائیں گے اور اس سلسلے میں ہم نے کام شروع کردیا ہے۔ ہم بدھ کو اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ ایک آن لائن میٹنگ کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہاں ہم نہ صرف قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کے خلاف اور اپنا ردِ عمل ظاہر کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سویڈن میں قرآنِ پاک کو نذر آتش کرنے کے ایکٹ محکمہ مذہبی امور عدلیہ کو پیش کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ کل انہوں نے محکمہ کے مختلف یونٹ ماہرین اور انچارج اور دیگر رہنماوں کے ساتھ بہت اہم میٹنگ کی گئی ہے۔ اس میٹنگ میں ہم نے جن موضوعات پر بات چیت کی وہ مختلف ممالک کی عدالتوں میں مقدمہ دائر کرنے کے لیے درخواستیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر صدر ایردوان کی نگرانی میں ۱۲۰ ممالک میں ترکیہ کے اتاشیوں اور دیگر حکام اس نازیبا حرکت کے خلاف اپنا ردِ پیش کریں گے۔ دریں اثناء سویڈن کے وزیراعظم الف کرسٹرسن نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا’’اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کا بنیادی حصہ ہے لیکن جو قانونی ہے ضروری نہیں کہ وہ مناسب بھی ہو۔ بہت سے لوگوں کے لیے مقدس کتابوں کو جلانا انتہائی بے حرمتی ہے‘‘۔انہوں نے لکھا’’میں ان تمام مسلمانوں کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جنھیں اسٹاک ہوم میں ہونے والے واقعے سے تکلیف پہنچی ہے‘‘۔سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیاس بلسٹروم نے بھی اس واقعے کو 'ہولناک‘ قرار دیا۔ انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ’’سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کی حکومت یا میں مظاہرے میں اظہار خیال کی حمایت کریں‘‘۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر