Latest News

یکساں سول کوڈ کا نفاذ غیر جمہوری عمل: مسلم پرسنل لا بورڈ، عاملہ کی میٹنگ میں اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی، بےقصوروں کی گرفتاری، ماب لنچنگ، بلڈوزر کارروائی، فرقہ وارانہ منافرت، اوقاف اور دیگر ملی وملکی مسائل پر قرار دادیں منظور، عدلیہ سے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کی درخواست۔

لکھنو: دارالعلوم ندوۃ العلماء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس اتوارکو صبح دس بجے منعقد ہوا۔اجلاس کی صدارت بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے کی۔ اجلاس میں ملک بھر سے مجلس عاملہ کے ارکان نے شرکت کی۔ اس موقع پر بہت سے پہلوئوں پر تفصیل سے گفتگو ہوئی جن میں یونی فارم سول کوڈ اور ملک کے مختلف عدالتوں میں چل رہے مسلم پرسنل لا سے متعلق مقدمات کا جائزہ لیا گیا۔ میٹنگ میں بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، نائب صدور مولانا ارشد مدنی، مولانا فخر الدین اشرف،پروفیسر سید علی نقوی، جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا فضل الرحیم مجددی، مولانا محمود مدنی، مولا نا سجاد نعمانی ، مولانا مصطفی رفاعی جیلانی، بیرسٹراسد الدین اویسی، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، ڈاکٹرقاسم رسول الیاس، کمال فاروقی، یوسف حاتم مچھالہ ایڈوکیٹ، مولانا سید بلال حسنی ندوی، مولانا عتیق احمد بستوی، ، ڈاکٹر مونسہ بشریٰ ، شمشاد احمد ایڈوکیٹ، طاہر حکیم ایڈوکیٹ خصوصی طور پر شریک تھے۔اجلاس میں عاملہ نے ۱۳‘ نکات پر مشتمل تجاویز منظور کیں ۔ پہلی تجویز میں یہ کہاگیا کہ ’’ملک میںنفرت کا زہر پھیلا یا جارہا ہے اور اس کو سیاسی لڑائی کا ہتھیار بنایا جارہا ہے۔ یہ اس ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ جنگ آزادی کے مجاہدین ، دستور کے مرتبین اور ملک کے اولین معماروں نے اس ملک کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا، یہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ یہاں صدیوں سے مختلف مذاہب، قبائل، زبانوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والوں نے ملک کی خدمت کی ہے اور اس کو آگے بڑھانے میں یک ساں کردار اداکیا ہے۔ اگر یہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ ختم ہوگیا تو ملک کا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے گا۔اس لیے یہ اجلاس حکومت سے ،محب وطن شہریوں سے، قانون دانوں، سیاسی رہ نمائوں اور میڈیا کے لوگوں سے درد مندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ نفرت کی اس آگ کو پوری قوت کے ساتھ بجھانے کی کوشش کریں اور اس کو ہوا دینے سے بچیں، ورنہ یہ آگ آتش فشاں بن جائے گی اور ملک کی تہذیب ، اس کی نیک نامی، اس کی ترقی اور اس کی اخلاقی وجاہت سب کو جلاکر رکھ دے گی‘‘۔دوسری تجویز میں کہاگیا کہ ’’قانون انسانی سماج کو مہذب بناتا ہے، ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے، مظلوموں کو انصاف فراہم کرتا ہے اور ان کے لیے حصول انصاف کی امید ہوتا ہے۔ لاقانونیت سماج کو انارکی میںمبتلا کردیتی ہے۔ ا س لیے حکومت ہو یا عوام ، اکثریت ہو یا اقلیت، برسر اقتدار گروہ ہو یا اپوزیشن، سرمایہ دار ہو یا غریب اور مزدور، سب کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میںنہ لیں، لیکن اس وقت بدقسمتی سے ملک میںلاقانونیت کا ماحول بن رہا ہے، ماب لنچنگ ہو رہی ہے، ملزم پر کیس ثابت ہونے سے پہلے اس کو سزا دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جو مکانات دسیوں سال سے بنے ہوئے ہیں، جو حکومت اور انتظامیہ کی نظروں کے سامنے بنے ہیں اور جن سے قانونی واجبات بھی وصول کیے جاتے رہے ہیں، ان کو بلڈوزر کے ذریعے لمحوں میں زمیں بوس کردیا جاتا ہے۔ احتجاج کا دستوری حق استعمال کرنے والے اور پر امن طور پر اپنا موقف پیش کرنے والوں کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے اور جرم ثابت کیے بغیر مدتوں ان کو جیل میں رکھا جاتا ہے۔ یہ سب لاقانونیت کی بدترین شکلیں ہیں اور لاقانونیت عوام کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف ، بہر حال قابل مذمت ہے۔ اس کو روکنا حکومت کا اور تمام باشندگان ملک کا فریضہ ہے‘‘۔ تیسری تجویز میں یہ کہاگیا کہ ’’ملک کے دستور کی بنیاد مساوات ، انصاف اور آزادی پر ہے۔ ان اصولوں کو قائم رکھنا حکومت کی بھی ذمہ داری ہے اور عدلیہ کی بھی۔ اس لیے عدلیہ سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ کم زور طبقات اور اقلیتوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کا جائزہ لے اور اپنا فریضہ منصبی ادا کرے۔ عدلیہ عوام کے لیے امید کی آخری کرن ہے۔ اگر یہ بھی مدہم پڑ جائے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیںہوسکتی ہے‘‘۔ چوتھی تجویز میں درج ہے کہ ’’ ملک کے دستور میں شامل بنیادی حقوق میںہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے، اس میں پرسنل لازبھی شامل ہیں۔ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ تمام شہریوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرے۔ پرسنل لا کے ذیل میںمختلف گروہوں کے جو تشخصات ہیں، ان کو ختم کرکے کامن سول کوڈ کا نفاذ ایک غیر جمہوری عمل ہوگا۔ یہ اتنے بڑے متنوع اور مختلف مذاہب اور تہذیب کے حامل ملک کے لیے موزوں بھی نہیںہے اور مفید بھی نہیںہے۔ اگر اس کو پارلی منٹ میں اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ملک کا اتحاد متاثر ہوگا، ملک کی ترقی میں رکاوٹ پید اہوگی اور اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اس لیے بورڈ کا یہ اجلاس جو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمایندوں پرمشتمل ہے، حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس ارادے سے بازآجائے اور ملک کے جو حقیقی مسائل ہیں ان پر توجہ کرے‘‘۔پانچویں تجویز میں کہاگیا کہ ’’عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء؁ کا قانون خود حکومت کا بنایا ہوا قانون ہے، جسے پارلی منٹ نے پاس کیاہے، اس کو قائم رکھنا حکومت کا فریضہ ہے اور اسی میں ملک کا مفاد ہے، ورنہ پورے ملک میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہوجائے گی اور یہ ملک کے لیے بہت ہی بدقسمتی کی بات ہوگی۔ اس لیے حکومت اپنی ذمہ د اری اداکرے اور فرقہ پرست عناصر کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے‘‘۔اس کے علاوہ تجویز میں اوقاف کے تعلق سے حکومت اور عوام کے قبضہ جات بات کی گئی اور اسے بحال بحال کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو اسلام اور قانون شریعت پر عمل کرنے ، عورتوں کے ساتھ انصاف، سود، ہم جنس پرستی، نکاح، ارتداد سے بچنے، حکومت کو ملک کے تعلیمی نظام کو دستور کے مطابق بنانے، دیگر مذاہب اور تہذیبوں کے احترام اور انصاف کے قیام پر زور دیاگیا۔ تجویز میں یہ بھی کہاگیا کہ مذہب اور عقیدے کا تعلق انسان کے یقین اور ضمیر سے ہے۔ اس لیے کسی مذہب کو اختیار کرنے کا حق ایک فطری حق ہے۔ اسی بنا پر ہمارے دستور میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور ہر شخص کو کسی مذہب کو اختیار کرنے یا مذہب کی تبلیغ کرنے کی آزادی دی گئی ہے ۔ البتہ اس کے لیے زور زبردستی اور مالی تحریص ایک نامناسب بات ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں مختلف ریاستوں میں ایسے قوانین لائے گئے اور لائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، جن کا مقصد ملک کے شہریوں کو سرے سے اس حق سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ یہ بات کسی بھی طرح قابل قبول نہیںہے۔ حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ تبلیغ مذہب کے لیے استعمال کیے جانے والے غیر قانونی طریقوں کو ضرور روکے، لیکن جو لوگ اپنی مرضی سے ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنا چاہتے ہیں یا پر امن طریقے پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔بورڈ مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ دینی اوراخلاقی ماحول کے ساتھ ہرسطح کے تعلیمی ادارے اورلڑکیوں کے لئے خصوصی درس گاہیں قائم کرنے پر توجہ کریں تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے تقاضے پورے ہوں، لڑکیاں محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کریں اورطلبہ وطالبات انسانی جذبے کے تحت ملک وقوم کی خدمت کرنے کے لائق بنیں۔بنیادی دینی تعلیم کے مکاتب بچوں کوصحیح راستے پر قائم رکھنے کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ہرمسجد اورہرمحلے میں اس کا انتظام ہونا چاہئے اورکوشش کرنا چاہئے کہ کوئی مسلمان بچہ یا بچی بنیادی دینی تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ اس لیے مسلمانوں سے خاص طورپر اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس پر بھرپور توجہ کریں تاکہ ہماری نئی نسل کا رشتہ دین واخلاق سے قائم رہ سکے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ نے آسام کی حکومت کے ذریعہ کم عمری کے شادیوں کے تعلق سے مسلم خاندانوں کی گرفتاری کا جو سلسلہ شروع کیا وہ انتہائی قابل تشویش ہے ۔ بورڈ حکومت آسام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ جو معاملہ زیر بحث ہے اس میں فیصلہ آنے تک ان پر کوئی اقدام نہ کرے۔ اس سلسلے میں بورڈ اپنی لیگل کمیٹی کو مجاز کرتا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرکے اسلام کا موقف بھر پورطریقے پر پیش کرے‘‘۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر