Latest News

ماں دنیا کی عظیم ترین ہستی: ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی۔

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
ہر سال14مئی کو یوم مادر
 Mother’s Day 
کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اب دنیا کے تقریباً46سے زائد ملکوں میں بڑی حضوصیت کے ساتھ اس یوم کا نظم کیا جاتا ہے.ماں کی عظمت کے بارے میں رب العالمین آپنے کلام میں ارشاد فرماتے ہیں۔وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا۔ترجمہ۔اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرو، انہیں بھلا برا مت کہو! یہاں تک کہ اف تک نہ کہو- انہیں مت جھڑکو بلکہ نرمی کے ساتھ پیش آؤ، ادب واحترام سے کلام کرو۔ماں کی عظمت کے بارے میں رحمت اللعالمین ﷺ ارشاد فرماتے ہیں حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: جاء رجل الى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم من احق الناس بحسن صحبتى قال امك قال ثم من قال امك قال ثم من قال امك قال ثم من قال ابوك.ایک آدمی آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آیا، عرض کیا، یارسول الله! لوگوں میں سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تیری ماں- پھر کون؟ فرمایا تیری ماں- پھر کون؟ اسی طرح تین مرتبہ آپ نے ماں فرمایا- چوتھی بار فرمایا کہ تیرا باپ ( متفق علیہ)حضرتِ عبد الله بن سلام رضی الله تعالیٰ عنہ بستر مرگ پر تھے، سرکارِ دو عالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا آخری دیدار کرنا چاہتے تھے آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبد الله کے سرہانے جاکر فرمایا: اے عبد الله پڑھ اشهد ان لا اله الا الله مگر وہ نہیں پڑھ سکے- آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے اسی طرح تین مرتبہ پڑھنے کو فرمایا، مگر وہ نہ پڑھ سکے- آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ دنیا میں ان کے اعمال کیسے تھے اور ان کا مشغلہ کیا تھا؟ جواب دیا یارسول الله! الله کی قسم! جب سے انہوں نے مجھ سے نکاح کیا ہے، میں نہیں جانتی کہ سرکار عليك التحية والثناء کے پیچھے، ان کی کوئی نماز چھٹی ہو- ہاں ان کی ماں ان سے ناراض ہے-آپ نے ان کی والدہ کو طلب فرمایا- فرمایا، اے ضعیفہ! اگر تم اپنے بیٹے کو معاف کر دوگی تو تمہارا حق میرے ذمہ ہے- اس ضعیفہ نے عرض کی یارسول الله! آپ اور آپ کے اصحاب گواہ ہیں کہ میں نے اسے معاف کردیا- اس کے بعد آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبد الله سے کلمہ شہادت پڑھواتے ہیں اور پڑھنے کے ساتھ ہی ان کی روح بھی پرواز کر جاتی ہیں- جب ان کی نمازِ جنازہ اور دفن سے فارغ ہوئے تو رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ جو شخص اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے اسے دنیا سے کوچ کرتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا نصیب نہ ہوگا-کیا ہم جنت نہیں چاہتے؟ جنت تو ماں کے قدموں تلے ہے، الجنة تحت اقدام امهات اگر ہم جنت چاہتے ہیں تو جس طرح ماں نے آپ کو بچپن میں پالا تھا اسی طرح آپ بھی ان کی خدمت کیجیےماں کا کوئی متبادل نہیں، جس کسی نے ماں کا مقام سمجھ لیا اور انتھک خدمت سے ماں کو راضی کر لیا اس نے جنت اپنے نام کرلی۔ دنیا کی ہر ماں اپنے بچوں کے لئے ایک شجر سایہ دار کی مانند ہوتی ہے۔ ماں کی آغوش بچوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہے، ماں کی محبت سود و زیاں سے بے نیاز ہے، زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں ماں کا روپ دیکھ کر یوں لگتا ہے جس طرح کسی مسافر کو اچانک تپتے صحرا میں چھاؤں میسر آ جائے۔ یہ ایک افسانوی بات نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے کہ ماں کا دل اپنے بچوں کے لئے اتنا نرم ہوتا ہے کہ اگر کوئی لمحہ ایسا آئے جس میں ان کی ذات حائل ہو رہی ہو تو وہ اپنی ذات تک کو اپنے بچوں پر وار دیتی ہے۔انسان عمر میں جتنا بھی بڑا ہو جائے وہ اپنی ماں کی نظروں میں کسی معصوم بچے کی مانند رہتا ہے، ما ہے وہ بڑھاپے کی دہلیز پر کیوں نہ پہنچ جائے۔ ماں کی محبت کی اور اس کی پرورش کی کوئی قیمت نہیں چکا سکتا۔ ماں کے اندر ممتا کا وہ جذبہ ہوتا ہے جو کسی اور میں نہیں ہوتا بچہ نظر سے دور ہو جائے تو ماں تڑپ اٹھتی ہے، ہر ماں کی دعاؤں اور وفاؤں کا محور اس کے بچے ہوتے ہیں۔ بچوں میں سے کوئی ایک بھی بھوکا ہوتو ماں بے قرار ہو جاتی ہے۔
اور اگر بچے سیر اور سیراب ہوجائیں تو ماں کو اپنی بھوک پیاس بھول جاتی ہے۔ یہ ماں ہی ہے جس کو اپنے بچوں کی پرورش کے دوران بڑے سے بڑا دکھ سہنا آتا ہے۔جب دو عورتوں کا ایک بچے پر تنازعہ ہوا وہ دونوں اس کی ماں ہونے کی دعویدار تھیں اور جب سرکاری عدالت اس تنازعہ کا کوئی حل تلاش نہ کر سکی تو ایک بار پھر دروازہ عدل علی علیہ السلام کی طرف رجوع کیا گیا اور انصاف کی ایسی شاندار مثال حاصل کی کہ آج بھی دنیا رشک کرتی ہے۔جب دونوں عورتوں نے ایک بچے کی ماں ہونے کا دعویٰ کیا تو اس بات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر دیں ایک ایک حصہ دونوں کو دے دیا جائے۔ اس پر حقیقی ماں کی ممتا تڑپ اٹھی اور کہا مجھے نہیں چاہیے یہ پھول دوسری عورت کو دے دیں، میں اپنے دعویٰ سے دستبردار ہوتی ہوں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بچہ اسی عورت کا ہے جو بچے کے ٹکڑے نہیں چاہتی، یہی اس کی حقیقی ماں ہے۔ماں کی عفت، رفعت اور عظمت پر کچھ لکھنا ہرگز آسان نہیں کیونکہ یہ موضوع اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے۔ ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ ماں دنیا کا وہ میٹھا جذبہ ہے جس کو محسوس کرنے سے محبت، حفاظت، تازگی، پاکیزگی، پیار، سکون اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔ ہر ماں اپنے بچوں کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا دست شفقت شجر سایہ دار کی طرح سائبان بن کر بچوں کو سکون کا احساس دلاتا ہے۔اس کی گرم آغوش سردی میں حفاظت کا کام کرتی ہے۔ خود بیشک کانٹوں پر چلتی رہے مگر اپنے بچوں کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے اور دنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہتی ہے اس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی دنیا میں پیدا نہیں ہوئی، آندھی چلے یا طوفان آئے، اس کی محبت میں کبھی کمی نہیں آتی۔ وہ نہ ہی کبھی احسان جتاتی ہے اور نہ ہی اپنی محبتوں اور چاہتوں کا صلہ مانگتی ہے بلکہ بے غرض ہو کر اپنی محبت بچوں پر نچھاور کرتی چلی جاتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ماں کی محبت ایک بحر بیکراں کی طرح ہے۔ ماں کی بے پایاں محبت کو لفظوں میں نہیں پرویا جا سکتا۔ خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں، ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ماں کو ممتاز اور مقدس قرار دیا ہے۔ ماں ایک دعا اور اس کا لمس ایک دوا ہے جو ہر وقت رب رحیم کے آگے اپنا دامن پھیلائے رکھتی ہے اور قدم قدم پر ان کی حفاظت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کے بینظیر ہونے کی پہچان اس طرح کرائی کہ اس عظیم ہستی کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔اب جس کا جی چاہے اس کی خدمت کر کے وہ جنت کو حاصل کر سکتا ہے۔ ہر رشتے میں خود غرضی شامل ہو سکتی ہے مگر ماں کے رشتے میں کوئی غرض اور ہوس شامل نہیں ہوتی۔ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ پر خلوص ہے اس کی زندگی کا محور صرف اور صرف اس کے بچے ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں اس کی دعائیں اور وفائیں کسی سائے کی طرح آپ کے ساتھ ساتھ چلتی اور مختلف بلاؤں سے آپ کی حفاظت کرتی ہیں اور اس کی دعاؤں سے بڑی سے بڑی مصیبت ٹل جاتی ہے، وہ بے قرار ہوتو عرش تک ہل جاتا ہے۔گلاب جیسی خوشبو، چودہویں کے چاند جیسی چاندنی، فرشتوں جیسی معصومیت، سچائی کا پیکر لا زوال، محبت، شفقت، تڑپ، ایثار و قربانی جب یہ تمام الفاظ یکجا ہو جائیں تو ماں کا تصور ابھرتا ہے، دنیاوی رشتوں میں ماں سے زیادہ کوئی مقدم نہیں۔ دنیا میں ماں کا کوئی نعم البدل نہیں، ماں وہ ہستی ہے جو اپنے ہر ایک بچے سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کرتی ہے اور ماں کے بغیر کسی بھی انسان کی زندگی کا سفر ادھورا رہ جاتا ہے۔ وہ لوگ جن کے سروں سے ان کی ماؤں کی ممتا کا سایہ اٹھ چکا ہو وہ ساری زندگی اپنی ماں کو یاد کر کے سرد آہیں بھرتے رہتے ہیں۔ماں اپنے بچوں سے اس قدر ٹوٹ کر محبت کرتی ہے کہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا نصب العین اور مقصد حیات اپنے بچوں کی پرورش، ان کا مستقبل روشن کرنے اور انہیں دنیا جہان کی خوشیاں فراہم کرنا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ماں کے دل سے جو دعا نکلے وہ براہ راست عرش تک رسائی رکھتی ہے اور اس دعا کو اللہ رب العزت بھی رد نہیں کرتا۔ماں کی گود ایک ایسا ٹھکانہ اور آشیانہ ہے جہاں ہر طرح کی مایوسیوں، محرومیوں اور مصیبتوں کی دوا بلکہ شفاء موجود ہے۔ بعض لوگ اپنی اس جنت کو پہچان نہیں پاتے اور سرابوں کے سفر میں نکل پڑتے ہیں۔ لیکن ایک دن یقین مانیں، ایک نہ ایک دن ان کو اپنی اس غلطی کا احساس ضرور ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ اس وقت تک چڑیاں کھیت چگ گئیں ہوتی ہیں۔ ماں اسلامی معاشرے میں اس ہستی کو کہتے ہیں جس کو سال میں ایک بار نہیں بلکہ پل پل یاد اور اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔کائنات میں کوئی نہیں جو ماں جیسی محبت کر سکتا ہو۔ اس لیے تو اللہ رب العزت کائنات کی سب سے عظیم محبت یعنی ماں کی محبت سے اپنی محبت کو منسوب کیا۔ بیشک قادر و کارساز اور شفیق و مہربان اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔اللہ کا واسطہ! اپنی ماؤں اور زندگی میں جنت کی چھاؤں کی قدر کریں،ان سے محبت کریں کیونکہ ماں کی پریشانی دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے صفا و مروہ کو حج کا اہم رکن بنا دیا تھا۔
لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی۔۔۔بس اک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی۔۔۔۔ 
ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی۔ناظم۔انجمن قاسمیہ چنئی ٹمل ناڈو۔چیرمین۔ آل انڈیا تنظیم فروغ اردو 9444192513

شعبہ نشرواشاعت۔انجمن قاسمیہ پیری میٹ چنئی ٹمل ناڈو انڈیا
anjumanqasimiyah@gmail.com

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر