Latest News

محمود مدنی نہیں چاہتے جمعیت ایک ہوں: مولانا ارشد مدنی کا ‘انکشاف’۔

ممبئی: (آر کے بیورو) بزرگ مسلم رہنما جمعیتہ علما ۓ ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے دعویٰ کیا کہ محمود مدنی نہیں چاہتے کہ دونوں جمعیت ایک ہوں ۔انہوں نے ہماری طرف سے اتحادو انضمام کی ہر پیشکش پر سرد مہری کا اظہار کیا اور آخر میں معذرت کرلی۔
ممبئ میں جمعیت کے دوروزہ اجلاس کے دوران مولانا ہے اس انکشاف سے اتحادکے لیے ہونے والی پس پردہ کوششوں کو پبلک ڈومین میں لادیا ۔اس تعلق سے جب مولانا محمود کی زیر قیادت جمعیت کے میڈیا سکریٹری س نیاز فاروقی سے 'روزنامہ خبریں' نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ دہلی سے باہر ہیں اور کل ہی کچھ کہہ سکیں گے۔ ان کا مشورہ تھا کہ مولانا محمود مدنی بہتر بتا سکیں گے، شاید حساس معاملہ پر انہوں نے خاموشی مناسب سمجھی۔

دراصل مولانا ارشد مدنی کی طرف سے برادرخورد مولانا اسجد مدنی کو جانشین (نائب صدر ) بنانے کے بعد مختلف اور خیر اندیش حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا تھا کہ اگر دونوں دھڑوں میں اتحادوانضمام ہونا ہے تو پھر اسجد مدنی کو بالواسطہ قیادت کی زمام کار تھمانے کا کیا مطلب ہے ؟
مولانا نے نے بیان‌ میں واضح کیا کہ وہ دل سے چاہتے رہے ہیں کہ دونوں جمعیت ایک ہوجائیں۔ وہ صدارت سمیت ہر قربانی دینے کو تیار ہیں، محمود مدنی کی صدارت میں نائب صدر بن کر کام کرنے میں خوشی محسوس کریں گے۔انہوں‌ نے خدا کو گواہ بناکر کہا کہ ان کو عہدے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ میری 82 سال کی عمر ہوگئی ہے سب دنیا دیکھ لی ہے۔
بہرحال اس پر مولانا محمود مدنی کا کیا ردعمل ہوگا اس۔ کا انتظار کرنا ہوگا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں جمعیت رسمی طور پر انضمام کی قراردادیں کئی بار منظور کر چکی ہیں مگر زبانی قول قال سے بات آگے نہیں بڑھی ۔جمعیت کے بعض قریبی حلقوں کا کہنا ہے دونوں طرف ایسے لوگ ہیں جو نہیں چاہتے کہ انضمام ہو، وہی رخنہ پیدا کررہےہیں اب یہ بات کتنی سچ ہے اس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ مولانا ارشد مدنی نے گیند محمود مدنی کے پالے میں ڈال دی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو یہ کہے کہ مولانا ارشد مدنی غلط کہہ رہے ہیں، سارا معاملہ دلچسپ موڑ پر آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ ہندوستان کی سب سے قدیم جماعتوں میں سے ایک جمعیت علمائے ہند کو ٹکڑوں میں دیکھنا کسی کو اچھا نہیں لگتا۔ لیکن‌یہ بات طے ہے کہ دونوں جمعیت کا انضمام دور کی کوڑی ہے دریا میں بہت پانی بہہ چکا ہے اور اختلاف کی بہت موٹی ہے اور جم گئی ہے۔

بشکریہ: روزنامہ خبریں( پورٹل)

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر