Latest News

اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم: ۱۵ مئی تک کسی بھی مقدمے میں عمران خان کو گرفتار نہ کیا جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ پیر تک کسی بھی مقدمے  میں عمران خان کو گرفتار نہ کیا جائے۔
عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ لاہور  زمان پارک پہنچنے تک ہمیں گرفتار نہ کیا جائے ، عدالت نے ریمارکس دیے کہ پیر صبح تک آپ کو پروٹیکشن دے رہے ہیں تب تک آپ لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی ایم پی او کے تحت گرفتاری بھی پیر تک روک دی اور کہا کہ کسی کرمنل کیس، 9 مئی کے بعد درج مقدمات، ایم پی او  وغیرہ میں پیر تک گرفتار نہ کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان ایک مقدمے میں ضمانت کیلئے آئے اور انھیں کئی مقدمات میں ضمانت مل گئی، عمران خان کے وکلاء ایک کے بعد ایک مقدمے میں عمران خان کی ضمانت کی درخواست کرتے رہے،  ایک کے بعد دوسری بینچ بنتی رہی اور عمران خان کی درخواستیں قبول کرتی گئی۔

پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں عمران خان کو دو ہفتے کی عبوری ضمانت دی۔ دو رکنی بینچ نے حکم دیا کہ ریاست عمران خان کی سکیورٹی یقینی بنائے ، عمران خان واضح ڈکلیریشن دیں کہ گرفتاری کے بعد جو واقعات ہوئے اس کی مذمت کرتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک اور بینچ نے ظلِ شاہ قتل کیس میں عمران خان کی 22 مئی تک ضمانت منظور کرلی۔ ایک اور بینچ نے لاہور میں درج تین مقدمات میں عمران خان کی 10 روز کیلئے حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔
عمران خان کے وکیل نے درخواست کی کہ زمان پارک لاہور پہنچنے تک عمران خان کو گرفتار نہ کیا جائے ، اس پر عدالت نے حکم دیا کہ عمران خان کو پیر تک تحفظ دیا جائے اور گرفتار نہ کیا جائے۔ پیر کو آپ لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوں ۔

عمران خان نے تحریری حکم نامہ ملنے تک عدالت سے نہ نکلنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد سماعت ختم ہونے کے تقریباً 3 گھنٹے بعد تک وہ عدالت ہی میں موجود رہے اور رات 10 بجکر 20 منٹ کے قریب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ سے روانہ ہوئے۔

عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے باعث عدالت کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے پچھلے دروازے کو سیل کردیا اور دو دروازوں پر سکیورٹی کےانتہائی سخت انتظامات کیے گئے۔
عدالت میں نماز جمعہ کے وقفے کےبعد سماعت کا دوبارہ آغاز کیا گیا تو خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری اور حفاظتی ضمانت کی درخواست ہے، ہم نے ایک اور درخواست میں انکوائری رپورٹ کی کاپی مانگی ہوئی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ نیب کو انکوائری رپورٹ کی کاپی فراہم کرنے کا حکم دیا جائے،  نیب کی انکوائری رپورٹ کا اخبار سے پتہ چلا۔

عدالت نے سوال کیا کہ آپ کو نوٹس کے ساتھ کوئی سوالنامہ نہیں دیا گیا، کیا آپ نے نیب آفس وزٹ کیا؟ 

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے اپنے دلائل میں کہا کہ جو پٹیشن یہاں دائر کی گئی اس کے لیے متبادل فورم موجود ہے، رٹ پٹیشن میں یہ معاملہ ہائیکورٹ لانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں، آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا گیا ہے، جس طرح کے پر تشدد واقعات ہوئے اس کے بعد فوج کو طلب کیا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ کیا یہاں مارشل لا لگ گیا ہے کہ ہم تمام درخواستوں پر سماعت روک دیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر عدالت اٹارنی جنرل کو بلا کر بھی سن لے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے عدالت میں کہا کہ 15 جولائی کو انکوائری شروع ہوئی جس کے بعد کال اپ نوٹس جاری ہوا، عمران خان کبھی بھی انکوائری میں پیش نہیں ہوئے،  اس کیس میں ایک بزنس ٹائیکون، زلفی بخاری اور دیگر کو نوٹسز ہوئے، میاں محمد سومرو، فیصل واؤڈا اور دیگر کا بھی نوٹسز ہوئے جنہوں نے انکوائری جوائن کی،شہزاد اکبر کو بھی نوٹس ہوا مگر انکوائری جوائن نہیں کی۔

بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی دو ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے ہدایت کی ہےکہ 17 مئی تک عمران خان کو کئی نئے مقدمات میں گرفتار نہ کیا جائے۔
عمران خان کی میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر عمران خان نے میڈیا نمائندگان کے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان جب اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈائری برانچ میں بائیومیٹرک کرانے کے بعد نکلے تو انہوں نے کیمروں کو دیکھ کر وکٹری کا نشانہ بنایا۔
دوسری جانب ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہےکہ عدالتی حکم کے مطابق گزشتہ شب عمران خان سے 10 افراد نےملاقات کی جن میں صدر مملکت، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان، ڈاکٹر فیصل اور 7 7 رکنی قانونی ٹیم نے بھی عمران خان سے ملاقات کی تھی۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر