طرابلس: افریقی ملک لیبیا ڈینیل طوفان کے باعث آنے والے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ سیلاب کی وجہ سے ہزارو ں لوگ ہلاک ہوگئے ہیں ہر طرف سڑکوں اور عمارتوں کے پاس نعشوں کا انبار لگا ہے ۔ حکام کا انداہ ہے کہ تازہ ترین سیلاب میں مرنے والوں کی تعداد 20,000 ہو گئی۔دس ہزار سے زیادہ اب بھی لاپتہ ہیں۔
اس دوران لیبیا کے شہر ڈیرنا میںمیئر عبدالمنعم نے عربی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ اس آفت کی وجہ سے شہر میں ہونے والی ہلاکتو ں کی تعداد 18000 سے 20,000 تک بتائی جارہی ہے ۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ساحل سمندر پر جگہ جگہ نعشیںبکھری ہوئی نظر آرہی ہیں ، انہیں دیکھ کر بہت دکھ ہوتاہے ۔ انہوں نے کہا کہ تدفین یا اجتماعی تدفین کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے دوران بہت سے لوگ پانی میں ڈوب کر مرگئے ۔قبل ازی لیبیا کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ سمندری طوفان کے باعث ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر18 ہزار ہو گئی ہے جبکہ 30 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہلاکتیں20 ہزار سے تجاوز کر جائیں گی۔
لیبیا کی وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق اب تک 10 ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں جن کا ریکارڈ حکام کے پاس ہے جبکہ ہزاروں لاپتہ افراد ایسے بھی ہیں جن کا ابھی تک اندراج نہیں کیا گیا۔ وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ مہلوکین میں 400 غیر ملکی بھی ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق مصر اور سوڈان سے ہے۔ لیبیا میں حکام نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر شہر درنہ کو رہائشیوں سے خالی کرا دیا گیا ہے جہاں سمندر مسلسل لاشیں اگل رہا ہے۔ حکام کے مطابق آفت زدہ شہر درنہ میں وبائی بیماریاں پھوٹنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے جہاں ابھی تک لاشوں کو دفنایا نہیں جاسکا۔صرف درنہ میں 30 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں جنہیں متاثرہ شہر سے باہر محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
عالمی موسمیاتی تنظیم کا کہنا ہے کہ لیبیا میں محکمہ موسمیات فعال ہوتا تو اتنی بڑی تباہی سے بچا جا سکتا تھا۔
اس کے علاوہ لیبیا کی پارلیمنٹ نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے تقریباً 2 ارب ڈالر کا ہنگامی بجٹ بھی منظور کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ درنا شہر کے میئر نے خدشہ ظاہر کیاتھا کہ لیبیا میں سیلاب سے اموات 20 ہزار تک ہوسکتی ہیں۔
سمندری طوفان کے باعث لیبیا کے شمال مشرقی ساحلی علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں غیر معینہ مدت کے لیے معطل کردی گئی تھیں۔
0 Comments