غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی۔ خلیجی میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے جنوبی شہر خان یونس پر فضائی حملہ کیا گیا جس میں 16 فلسطینی شہید ہوگئے۔
مقامی میڈیا کا بتانا ہےکہ اسرائیلی فضائیہ نے ال آغا اور ابو صاحب فیملیز کے گھروں پر بغیر کسی وارننگ کے بم گرائے جس کے نتیجے میں گھروں میں موجود 8 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک ہزار 55 ہوگئی ہے جب کہ 5 ہزار سے زائد فلسطینی شہری زخمی ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے حماس سے جاری لڑائی میں اب تک 1200 افراد کی ہلاکت اور 2800 سے زائد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہےکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ غزہ کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے جسے بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔
مقامی صحافیوں کے مطابق غزہ کی گلیاں سنسنان ہیں اور خوف و ہراس میں مبتلا شہری بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہےکہ اسرائیلی جارحیت کے سبب غزہ میں کوئی مقام محفوظ نہیں ہے جس وجہ سے ڈاکٹرز اور ایمرجنسی ورکرز کو کام کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی شدید بمباری کی وجہ سے غزہ کی فضا میں دھواں موجود ہے جس سے سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا ہے، فضا میں شدید دھوئیں کی وجہ سے شہری گھروں کے کھڑکی دروازے بند کرنے پر مجبور ہیں جب کہ بمباری کی وجہ سے متعدد بلڈنگوں میں آگ لگ چکی ہے جس سے فضا مزید آلودہ ہورہی ہے، متاثرہ علاقوں میں آگ بجھانے کے لیے کوئی فائر فائٹر بھی موجود نہیں۔۔دوسری جانب لبنانی تنظیم حزب اللہ کا کہنا ہےکہ اس نے اپنے تین فائٹرز کے قتل پر اسرائیلی فوج پر میزائل داغے ہیں۔
دوسری جانب حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا کہنا ہے کچھ ممالک کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے لیکن جنگ ختم ہونے تک قیدیوں کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا اور جب بھی قیدیوں کا تبادلہ ہو گا تو قیدیوں کی قیمت حماس طے کرے گی۔
اسماعیل ہانیہ نے غزہ کے عوام کی فلسطین کاز کے لیے قربانیاں دینے کے جذبے اور ولولے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حماس کی کارروائیوں کے جواب میں اسرائیل کے جوابی حملے صیہونی ریاست کی شکست کی عکاسی کر رہے ہیں۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس قیدیوں کے تبادلے سے متعلق گفتگو قبل از وقت ہے، یہ کہنا بہت مشکل ہےکہ کوئی بھی فریق ثالثی سے آغاز کر سکتا ہے۔
0 Comments