Latest News

کولکاتہ برمن اغواء معاملہ: سپریم کورٹ سے نور محمد کو بڑی راحت، اہل خانہ کے ہمراہ مہاراشٹر میں رہنے کی اجازت۔

ممبئی: سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ نے گذشتہ دنوں بائیس سالوں کے طویل عرصہ کے بعد جیل سے ضمانت پرر ہا نور محمد عرف سکندر کو اس کے اہل خانہ کے ہمراہ رہنے کی اجازت دے دی، اس سے قبل کولکاتہ سیشن عدالت نے ملزم کو کولکاتہ شہر سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی تھی جس کے بعد ملزم کو قانونی امداد فراہم کرنی والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) کے توسط سے ملزم نے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیاجہاں سے راحت حاصل ہوئی۔سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اے ایس اوکا اورجسٹس اجول بھویان کو ایڈوکیٹ شاہد ندیم اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے بحث کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کی ہدایت کے مطابق ملزم ضمانت پر رہا ہوچکا ہے لیکن نچلی عدالت نے ضمانت کی شرائط طئے کرتے ہوئے ملزم کو کولکاتہ شہرسے باہر جانے پر پابندی لگادی تھی۔ وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم کا تعلق مہاراشٹر سے ہے اور ملزم متعدد بیماریوں میں ملوث ہے نیز کولکاتہ میں ملزم در در بھٹکنے پر مجبور ہے کیونکہ اسے کوئی کرایہ کا مکان نہیں دے رہے ہیں ا ور ملزم کی معاشی حالت بھی ایسی نہیں ہے کہ وہ علاج کراسکے اور کرایہ کے مکان کا کرایہ ادا کرسکے لہذا عدالت کو ملزم کو مہاراشٹر میں رہنے کی اجازت دینا چاہئے۔مغربی بنگال حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ مدھومیتا بھٹاچاریہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سنگین الزامات کا سامنا کررہاہے لہذا ملزم کو کولکاتہ شہر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دینا چاہئے۔فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد عدالت نے ملزم نور محمد پر عائد ضمانت کی شرائط میں تبدیلی کرتے ہوئے اسے کولکاتہ شہر سے باہر جانے کی اجازت دی، عدالت نے ملزم کو حکم دیا کہ وہ مقامی پولس اسٹیشن میں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو حاضری لگائے۔ایڈوکیٹ آن ریکارڈ چاند قریشی نے نور محمد کی ضمانت کی شرائط میں ترمیم کرنے کی عرضداشت داخل کی تھی۔ واضح رہے کہ ملزم پر الزام ہے کہ وہ 23/جولائی 2001ء کو مغربی بنگال کے شہر کولکاتہ کی مشہور جوتے کی کمپنی کے مالک روئے برمن کو اغواء کرنے والے معاملے میں ملوث تھا نیز اغواء سے حاصل ہونے والی رقم کو اس نے کولکاتہ امریکن سینٹر پر حملہ میں استعمال کیا تھا۔ اس مقدمہ میں پولس نے پہلے 22/ لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا جس میں سے 17/ ملزمین باعزت بری ہوئے تھے اور بقیہ پانچ ملزمین کو 21/ مئی 2009ء عمر قید کی سزا ہوئی تھی لیکن مقدمہ ختم ہوجانے کے بعد پولس نے آٹھ دیگر ملزمین کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا جن کے خلاف 65/ سرکاری گواہوں نے گواہی دی جس کے بعد علی پور جیل میں قائم خصوصی عدالت نے انہیں بھی عمر قید کی سزا سنا دی جس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر