Latest News

’شریعت کے خلاف قانون ہمیں منظور نہیں‘ اتراکھنڈ اسمبلی میں یکساں سول کوڈ بل پیش کیے جانے پر مسلم علما و دانشوران اور سیاسی لیڈران کا شدید رد عمل۔

نئی دہلی: اتراکھنڈ اسمبلی میں پیش کئے گئے یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) بل پرسیاسی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ مسلم تنظیموں اورکئی مذہبی رہنماؤں نے اس فیصلے سے متعلق اتراکھنڈ حکومت کی تنقید کی ہے۔ 
اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈکو نافذ کرنے کے ریاستی سرکارکے فیصلہ پر صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے اپنے شدیدردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا قانون منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو۔آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ مسلمان ہر چیزسے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن ا پنی شریعت اوردھرم سے ہرگز ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ میں آج یکساں سول کوڈکاجوبل منظورہواہے اس میں درج فہرست قبائل کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ 366کے باب 25کی ذیلی دفعہ 342کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے اوریہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ21کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتاہے توآئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی ہے، جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس طرح دیکھاجائے تویکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتاہے، اگر یہ یکساں سول کوڈہے توپھر شہریوں کے درمیان یہ امتیاز کیوں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری لیگل ٹیم اس بل کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ کسی بھی مذہب کاماننے والااپنے مذہبی امورمیں کسی طرح کی بے جامداخلت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے تکیثری ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے اپنے اپنے اعتقادات اورمذہبی ریت اوررواج پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہیں وہاں آج یکساں سول کوڈکا نفاذآئین میں شہریوں کودیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولرآئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کاہے، کیونکہ ہندوستان ایک سیکولرملک ہے اوردستورمیں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کااپنا کوئی مذہب نہیں ہے، اس لئے یکساں سول کوڈمسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہےاورملک کی یکجہتی اورسالمیت کے لئے بھی نقصاندہ ہے۔ یکساں سول کوڈکے نفاذکے لئے، دفعہ 44 کو ثبوت کے طور پر پیش کیاجاتا ہے اوریہ پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ یکساں سول کوڈکی بات توآئین میں کہی گئی ہے جبکہ دفعہ 44رہنمااصول میں نہیں ہے، بلکہ ایک مشورہ ہے۔ لیکن آئین کی ہی دفعہ 25، 26 اور 29 کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اس طرح دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے، اس کے باوجود ہماری حکومت کہتی ہے کہ ایک ملک ایک قانون ہوگا اور یہ کہ ایک گھر میں دو قانون نہیں ہو سکتا۔یوپی کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادوکی قیادت والی پارٹی سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ایس ٹی حسن نے واضح طورپرکہہ دیا ہے کہ “آپ کتنے بھی قانون لے آئیں، لیکن ہم وہی مانیں گے، جو قرآن شریف میں ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ آپ یہ قانون کیوں لا رہے ہیں۔ ووٹ کی سیاست کے سبب الیکشن سے پہلے یہ قانون لانے کی ضرورت کیوں ہے۔ یہ صرف ہندو-مسلمان کولڑانے کے لئے ہی لایا جا رہا ہے۔ ہم اسے نہیں مانیں گے، ہم صرف قرآن کومانیں گے۔” انہوں نے کہا کہ قرآن کریم نے ہمیں جو ہدایات دی ہیں، ہم اس پرعمل کریں گے۔ ہماری شریعت سے کسی مذہب کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اگرہماری شریعت میں مداخلت کی جائے گی تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔” وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اس پرسوال اٹھایا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن اورمعروف عالم دین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ کیا یونیفارم سول کوڈ (یوسی سی) آنے پرسبھی قوانین میں یکسانیت ہوگی؟ نہیں، بالکل بھی یکسانیت نہیں ہوگی۔ جب آپ نے کچھ طبقوں کو اس سے چھوٹ دے دی ہے تو یکسانیت کیسے ہوسکتی ہے؟ ہماری قانونی کمیٹی اس کا مطالعہ کرے گی اوراس کے بعد اس پرفیصلہ لیا جائے گا۔وہیں، دہرہ دون کے شہرقاضی محمد احمد قاسمی نے کہا کہ یوسی سی صرف مخصوص مذہب کے خلاف ہے کیونکہ اس میں مسلم طبقے کی طرف سے دیئے گئے اعتراضات کو درکنارکیا گیا ہے۔ اس میں مسلم سماج کے مشوروں کو بھی جگہ نہیں ملی ہے۔ ہم آئینی دائرے میں رہتے ہوئے اس کی مخالفت کریں گے۔ یہ آرٹیکل 25 کے تحت ہرمذہب کوماننے والے شخص کو اپنے مذہب پرچلنے کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔مسلم سیوا سنگٹھن (ایم ایس ایس) کے صدرنعیم قریشی کا کہنا ہے کہ یوسی سی کے چارالتزامات راست طورپرمسلم پرسنل لاء پرحملہ کرتے ہیں۔ یہ صرف مسلم پرسنل لاء ختم کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ حالانکہ، اتراکھنڈ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈریشپال آریہ نے منگل (6 فروری) کو کہا کہ کانگریس اس بل کے خلاف نہیں ہے۔ اس طرح کی افواہ پھیلائی جا رہی ہے کہ کانگریس اس کے خلاف ہے۔ اس طرح سے اب کانگریس کنفیوژہے۔ کیونکہ کانگریس کے کچھ لیڈران کی طرف سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے وہیں اتراکھنڈ کے اپوزیشن لیڈرکواس قانون سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر