غزہ کی پٹی پراسرائیلی جنگ اپنے 143 ویں دن میں داخل ہو گئی ہے جب کہ انسانی بحران تیزی سے اور خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ایسے میں عالمی ادارہ خوراک کے اندازے کے مطابق غزہ کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی خوراک سے محروم ہوچکی ہے اوران کے پاس کھانے کو کچھ نہیں جب کہ 90 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
اگرچہ غزہ کی پٹی کے مختلف گورنریوں میں اشیائے خوردونوش کی قلت اور صاف پانی اور طبی خدمات کی قلت موجود ہے مگر شمالی غزہ کی پٹی کے عوام بدترین فاقہ کشی کی زندگی گذار رہےہیں۔
تقریباً آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو کوئی امداد نہیں مل رہی اور انہیں قحط کا سامنا ہے، یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے زندہ رہنے جانوروں کے چارے کو خوراک کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے مگراب وہ چارہ بھی ختم ہوچکا ہے۔
اب چارہ بھی ختم ہو رہا ہے
اس تناظر میں شہری محمد الغول نے اپنے چہرے پر تھکن کے آثار کے ساتھ کہا کہ ’’ہم تھک چکے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے جسموں پر صاف نظر آرہا ہے۔ ہمارے پاس اناج ختم ہو گیا، ہمارے پاس آٹا ختم ہو گیا، ہمارے پاس چاول ختم ہو گئے اور جانوروں کے چارے تک کچھ نہیں بچا”۔انہوں نے مایوسی کے عالم میں پوچھاکہ "ہم قتل کے ان تمام طریقوں کے سامنے کیا کریں جو ہمارے خلاف رائج ہیں، قتل، بھوک، تباہی، محاصرہ اور سردی؟ یہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس کا ہم شمالی علاقوں میں سامنا کر رہے ہیں”۔
غزہ میں سرکاری میڈیا آفس نے خبردار کیا تھا کہ بالعموم پوری غزہ کی پٹی بالخصوص شمالی غزہ کی پٹی میں قحط تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے جس سے لاکھوں بچوں اور خواتین کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔غزہ میں فلسطینی ہلال احمر کے ترجمان راید نمس نے تصدیق کی ہے کہ بھوک اور خوراک تک رسائی کی کمی کے نتیجے میں بچوں، بوڑھوں اور دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد میں بڑی تعداد میں اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
0 Comments