آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک وفد نے جس کی قیادت بورڈکے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے کی یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ بورڈ کے وفد نے چیف سکریٹری اترپردیش کی جانب سے یوپی کے8449 مدرسوں کوجاری نوٹس پر اپنا اعتراض درج کروایا۔ جس کی بنیادپر ضلعی انتظامیہ ہرضلع میں موجود مدارس کو انتباہ دے رہی ہیں کہ وہ مدارس میں موجود بچوں کوبیسک تعلیم کے لئے اسکولوں میں داخل کروائیں۔ سدھارتھ نگر، کشی نگر اورسنت کبیرنگر میںمدارس کے خلاف ضلعی انتظامیہ نے کارروائی بھی شروع کردی ہے۔
بورڈ کے وفد نے وزیراعلیٰ سے کہا کہ ان مدارس کو غیرمنظورشدہ اس بنیاد پر کہاجارہا ہے کہ وہ مدرسہ بورڈ سے ملحق نہیں ہیں، حالانکہ یہ مدارس کسی نہ کسی ٹرسٹ یا سوسائٹی کے تحت برسوں سے قائم ہیںاوران مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ بورڈ کے وفد نے واضح کیا کہ چیف سکریٹری کی طرف سے جاری یہ حکم نامہ ملک کے آئین کی دفعات 14 ,21 ,26 ,28 ,29 اور 30 سے بھی متصادم ہے۔ ملک کے آئین نے اقلیتوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرسکتے ہیں بلکہ اس کا انتظام وانصرام بھی اپنی مرضی کے مطابق کرسکتے ہیں۔ اسی طرح رائٹ ٹوایجوکیشن ایکٹ2009 نے بھی مدارس اورپاٹھ شالائوں کو ایکٹ سے مستثنیٰ کررکھا ہے۔ بورڈ کے وفد نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ نہ صرف یہ مدارس معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں بلکہ لاکھوں بچوں کی رہائش اورکھانے پینے کا بھی معیاری اورمفت انتظام کرتے ہیں۔
بورڈ نے راشٹریہ بال ادھیکار سنرکشن آیوگ کی جانب سے یوپی کے چیف سکریٹری کو جاری 07.06.2024کے خط پربھی سخت اعتراض جتایا، جس میں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ غیرمنظورشدہ مدارس کا سروے کرواکر ان کی میپنگ کی جائے اوراس میں تعلیم حاصل کررہے مسلم اورغیرمسلم بچوں کو نکال کر اسکولوں میں داخل کروایا جائے۔چنانچہ انتظامیہ نے 8449 مدارس کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعۃ الفلاح اورمدرسۃ الاصلاح جیسے بڑے اور بین الاقوامی نوعیت کے مدارس بھی شامل ہیں۔ بورڈ کے جنرل سکریٹری نے وزیراعلیٰ کوبتایا کہ ان مدارس سے فارغ طلباء کو ملک کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں یہاں سے فارغ طلباء اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان مدارس سے فارغ کئی افرادحکومت کے کئی بڑے مناصب پر فائز رہے ہیں۔
بورڈ نے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طورپر اس حکمنامہ کو واپس لینے کے احکامات جاری کریں تاکہ ریاست کے مسلمانوں میں جو بے چینی پیدا ہوگئی ہے اس کا مداوا ہوسکے۔ بورڈ کے جنرل سکریٹری نے آخر میں ایک تحریری میمورنڈم بھی وزیراعلیٰ کو پیش کیا۔
وزیراعلیٰ نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ اس پرسنجیدگی سے غورکریں گے۔ بورڈ کے وفد میں جنرل سکریٹری کے علاوہ مجلس عاملہ کے ممبران مولانا خالدرشید فرنگی محلی، مولانا عتیق احمدبستوی، ڈاکٹر سیدقاسم رسول الیاس (ترجمان) اورا یڈوکیٹ سعود رئیس شامل تھے۔
0 Comments