نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے جو ان دنوں ایک بین الاقومی کانفرنس میں شرکت کے لئے ازبکستان گئے ہوئے ہیں، اس فیصلہ پر اپنے اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کے اس فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہیں، سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے دستورکی روشنی میں دفعہ
6A
کی بہت ہی مناسب اوردرست وضاحت کی ہے، انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ کے اس فیصلہ سے آسام میں شہریت کو لیکر اندیشہ اورخدشات کے جوبادل چھائے ہوئے تھے وہ بڑی حدتک چھٹ گئے ہیں، اس فیصلہ کا سماج میں رہنے والے ہر شخص کو فائدہ پہنچے گا، مولانا مدنی نے کہا کہ نفرت اورتعصب کی سیاست کے اس دورمیں جہاں ایک طرف اس طرح کے مسائل کھڑے کرکے مذہبی شدت پسندی اورمنافرت کی آگ لگانے والے لوگ موجودہیں،آئینی بینچ کایہ فیصلہ بتاتاہے کہ آگ پر پانی ڈالنے والے لوگ آج بھی موجودہیں مولانا مدنی نے یہ بھی کہاکہ موجودہ آسام حکومت کھل کر مسلم مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، اس کی پوری کوشش تھی کہ دفعہ ۶ اے کسی طرح منسوخ ہوجائے، کیونکہ اس صورت میں پچاسوں لاکھ مسلمانوں کی شہریت خطرہ میں پڑسکتی تھی، صورتحال یہ ہے کہ وہاں کا وزیراعلیٰ آئے دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے درحقیقت ایسا کرکے وہ ریاست کے ہندووں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت کی ایک ایسی خلیج پیداکرنے کے درپے ہے جس کو آسانی سے پاٹانہ جاسکے مگر آج جو فیصلہ آیا ہے وہ نہ صرف تاریخی اورغیر معمولی ہے بلکہ اس سے ان فرقہ پرست عناصرکے جذبوں پر سرداوس پر گئی ہے جو اس امید میں پاگل ہوئے جارہے تھے کہ دفعہ 6Aکی منسوخی کے بعد مسلمانوں کو غیر ملکی قراردیکرریاست سے نکال باہر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی آسام معاہدہ کے بعد 1951شہریت ایکٹ میں ترمیمی دفعہ 6A داخل کرکے شہریت کی حتمی بنیاد 25/مارچ 1971مقررکردی گئی تھی، اس ترمیم کو پارلیمنٹ میں باقاعدہ منظوری دی گئی تھی اور اس کو تمام اپوزیشن پارٹیوں نے بھی تسلیم کیا تھا ان میں بی جے پی بھی شامل تھی، لیکن بعد میں اس حساس مسئلہ کو سیاسی رنگ دیدیاگیا اور زور و شور سے تشہیرکیاگیا کہ اس ترمیم سے جو لوگ غیرقانونی طورپر ریاست میں داخل ہوئے ہیں انہیں شہریت مل جائے گی، اور اس سے آسام کی تہذیب و ثقافت بھی متاثرہوگی، انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کو فرقہ پرست عناصرنے نہ صرف فرقہ ورانہ رنگ دیدیابلکہ اس کے نتیجہ میں ریاست میں این آرسی بھی نافذ کردی گئی، مگر دفعہ 6A کو لیکر تذبذب برقراررہا کیونکہ اس کو غیر آئینی قراردینے کے لئے کچھ تنظیمیں اورلوگ سپریم کورٹ چلے گئے تھے، اس لئے شہریت کے لئے حتمی تاریخ کا تعین بھی نہیں ہوسکاتھا، مولانا مدنی نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے دفعہ 6Aپرنہ صرف اپنی مہر ثبت کردی بلکہ شہریت کے لئے وہی کٹ آف تاریخ مقررکردی جس کی پیروی پہلے دن سے جمعیۃعلماء ہند کررہی تھی، انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ سے عام لوگوں کاعدلیہ میں اعتماد مزید بڑھا ہے اس کے لئے ہمارے وہ وکلاء بھی قابل مبارک بادہیں جنہوں نے اس اہم اوربڑے مقدمہ کو بڑی محنت اور نظم وضبط کے ساتھ لڑا اور اپنے دالائل سے آئینی بینچ کو قائل کیا کہ دفعہ 6A آسام میں امن، اتحاداوراستحکام کے قیام کے لئے کس قدرضروری ہے اور اگر اسے ردکردیا گیا توآسام میں ایک بڑے انسانی بحران کی صورتحال پیداہوسکتی ہے۔مولانا مدنی نے آج کے فیصلہ پر اپنی خوشی کاااظہارکرتے ہوئے مزیدکہا کہ 2017 میں پنچائیت سرٹیفکٹ کو شہریت کاثبوت ماننے والے فیصلہ پر مجھے اپنی جماعتی زندگی میں جس قدر مسرت اورخوشی ہوئی تھی اس سے کہیں زیادہ آج کے اس اہم آئینی بینچ کے تارخ ساز فیصلہ پر ہورہی ہے۔
قابل ذکرہے کہ جمعیۃعلماء ہند روزاول ہی اس اہم مقدمہ میں فریق ہے اورمسلسل جمعیۃعلماء ہند اورآمسوکی طرف اس مقدمہ کی پیروی کے لئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، سینئرایڈوکیٹ سلمان خورشید، سینئرایڈوکیٹ اندراجے سنگھ، ایڈوکیٹ مصطفی خدام حسین اورایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی موجود رہتے تھے۔
سمیر چودھری۔
0 Comments