Latest News

اگلے حکم تک مسلم عبادت گاہوں کے سروے اور مقدمہ کی سماعت پرروک، ورشپ ایکٹ مقدمہ پر جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ، مولانا ارشد مدنی نے کیا خیرمقدم۔

 نئی دہلی:  سنبھل شاہی جامع مسجد سانحہ اور اجمیر درگاہ پر ہندوؤں کے دعوے کے پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تعلق سے داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران سپریم نے ایک بڑافیصلہ سناتے ہو ئے مسلم عبادت گاہوں کے خلاف قائم مقدمات پر فوری روک لگا دی اور نئے مقدمات پر کارروائی کرنے سے نچلی عدالتوں کو منع کردیا۔عدالت نے مسلم عبادت گاہوں کے سروے پر بھی روک لگادی ہے نیزنچلی عدالت کو کسی بھی طرح کا حتمی فیصلہ دینے سے منع کردیا، عدالت نے مزیدکہا کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون ایسے مقدمات کی سماعت کرنے سے روکتاہے لہذاجب تک سپریم کورٹ اس قانون کی آئینی حیثیت پر فیصلہ صادرنہیں کردیتی نچلی عدالت مقدمات کی سماعت نہیں کرسکتی ہیں۔چیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کو مرکزی سرکار کی جانب سے جواب داخل کرنے کے لیئے چارہفتوں کی مہلت دی ہے۔جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اسے ایک بڑا اور اہم فیصلہ قرار دیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امید ہے کہ اس فیصلے سے ملک میں فرقہ پرستی اور بدامنی پھیلانے والوں پر روک لگے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم توقع کررہے تھے کہ معاملہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے عدالت اس پر اپنا حتمی فیصلہ دے گی،تاہم یہ عبوری فیصلہ بھی اپنے آپ میں بہت بڑا اور اہم فیصلہ ہے،کیوں کہ عدالت نے اگلا حکم آنے تک مسلم عبادت گاہوں کے سروے پر نہ صرف روک لگادی ہے بلکہ نچلی عدالتوں پر بھی نئے مقدمات درج اور سماعت کرنے پر پابند ی عاید کردی ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کی آڑ میں وہاں جو کچھ ہوا یا اب بھی ہورہا ہے اس سے صاف ظاہر ہو چکا ہے کہ مسجدوں اور درگاہوں پر مندر ہونے کا دعوی کرکے اور ان کا سروے کرانے کی آڑ میں فرقہ پرست عناصر ملک میں بد امنی پھیلا کر صدیوں پرانے امن و اتحاد اور بھائی چارے کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہی بنیادی سبب ہے کہ ایسے لوگوں کو عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق 1991 کا قانون کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے اور وہ اسے کسی نہ کسی طرح رد کرانے کی خطرناک سازش کررہے ہیں۔اس کے لئے سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف 2022میں ایک پٹیشن داخل کرائی گئی۔جمعیۃ علماء ہند نے اس کی مخالفت میں اور مذکورہ قانون کے حق میں سپریم کورٹ کا رخ کیا۔مولانا مدنی نے آگے کہا کہ ہم نے بابری مسجد پر آنے والے فیصلے کو دل پر بھاری پتھر رکھ کر قبول کیا تھاکہ چلواب ملک میں کوئی مسجد مندرتنازعہ نہیں پیداہوگااورملک میں امن وامان اوربھائی چارہ کی فضاقائم ہوگی ، لیکن ہمارایہ یقین غلط ثابت ہوا، آج ایک بارپھر اسی طرح ملک کے حالات کو دھماکہ خیزبنادینے کی سازش ہورہی ہے جس طرح بابری مسجد تنازعہ کے دوران فرقہ پرستوں نے بنائی تھی انہوں نے کہاکہ اس معاملہ میں نچلی عدالتوں کا رویہ اورطریقہ انتہائی مایوس کن رہااگر نچلی عدالتیں سوج بوجھ سے کام لیکر حکم نہ جاری کرتی توسنبھل میں پانچ بے گناہ نوجوانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ نہ دھونا پڑتاآج بھی وہاں کے لوگوں کے ساتھ انتظامیہ اورمقامی پولس وحشیانہ سلوک کررہی ہے باہر کے لوگوں کو وہاں جانے نہیں دیاجارہاہے ایسے میں وہاں کے زخم خورہ مظلوم مسلمان کسی سے انصاف کی فریادبھی نہیں کرسکتے اس پس منظرمیں دیکھاجائے توآج کا فیصلہ ایک بڑافیصلہ ہے اب کوئی نیاسروے نہیں ہوگااورنہ ہی نچلی عدالتیں کسی نئے معاملہ پر سماعت ہی کرسکیں گی انہوں نے اخرمیں کہاکہ ہمیں پورایقین ہے کہ حتمی فیصلہ 1991 کے قانون کے حق میں ہوگاکیونکہ یہی وہ قانون ہے جوملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اورمذہبی شدت پسندی کے جنون کو روک سکتاہے ۔ 
 دوران سماعت ہندو فریق کی جانب سے وکلاء نے کسی بھی طرح کا اسٹے دیئے جانے کی سخت مخالفت کی جسے عدالت نے نامنظور کردیا۔جمعیۃ علماء ہند کی درخواست پر چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے اس اہم مقدمہ کی سماعت کرنے کے لیے ایک خصوصی بینچ تشکیل دی تھی ۔ چیف جسٹس آف انڈیا کے ساتھ جسٹس سنجے کمار اور جسٹسکی وی وشواناتھن نے مقدمہ کی سماعت کی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن پر بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندر نے عدالت کو بتایا کہ عباد ت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی قانونی حیثیت ہوتے ہو ئے بھی نچلی عدالتیں مسلم عبادت گاہوں کے خلاف داخل مقدمات پر سماعت کررہی ہیں ا ور سروے کا حکم دے رہی ہیں جس سے سنبھل جیسے واقعات ہورہے ہیں جس سے ملک کا امن وامان خراب ہورہا ہے۔ ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کو مزید بتایا کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق15،اگست 1947 کو ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا ۔عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے حق میں بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کو مزید بتایا کہ پورے ملک میں ابتک تاریخی و مذہبی اہمیت کی حامل مسلم عبادت گاہوں کے خلاف 18 ؍ مقدمات زیر سماعت ہیں جس میں نچلی عدالت کی جانب سے سروے کا حکم یا سروے کرائے جانے کے تعلق سے جواب طلب کیا گیا ہے۔ جن مسلم عبادت گاہوں کے خلاف نچلی عدالتیں یا ہائی کورٹ میں مقدمات زیر سماعت ہیں اس میں جامع مسجد منگلور،جامع مسجد شمشی،گیان واپی کاشی وشوناتھن ،شری کرشنا جنم بھومی شاہی عیدگاہ متھورا، ٹیلے والی مسجدلکھنؤ، بھوج شالہ کمال مولی مسجد مدھیہ پردیش،قوت الالسلام مسجد قطب مینا دہلی،جامع مسجد سنبھل،اجمیر شریف درگاہ اور اٹالہ مسجد جونپورشامل ہیں۔ڈاکٹر راجو رام چندرن کے دلائل کی سماعت کے بعد چیف جسٹس آف انڈیانے کہاکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے حق میں جمعیۃ علماء ہند نے پٹیشن داخل کی ہے جبکہ اس قانون کے خلاف چار پٹیشن داخل کی گئی ہے لہذا مرکزی حکومت کا موقف جانے بغیر اس مقدمہ کی حتمی سماعت نہیں ہوسکتی نیز جب تک مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے نچلی عدالتیں مقدمات کی سماعت کرنے کے مجاز نہیں ہے ۔جسٹس کی وی وشوناتھن نے کہاکہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے نچلی عدالت مقدمہ سماعت نہیں کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے متوازی کوئی بھی عدالت چل نہیں سکتی ہے۔جسٹس وشوناتھن نے مزیدکہاکہ بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون 1991کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا ہے اس کے باوجودنچلی عدالتیں مقدمات کی سماعت کررہی ہیں جو غیر ضروری ہے ۔ فریق مخالف یعنی مسلم عبادت گاہوں پر دعویٰ کرنے والے لوگوں کے وکلاء نے نچلی عدالت میں جاری مقدمات کی سماعت پر اسٹے کی سخت لفظوں میں مخالفت کی اور کہاکہ سپریم کورٹ نچلی عدالت کے میں جاری مقدمات کے فریق کے دلائل کی سماعت کیئے بغیر فیصلہ جاری نہیں کرسکتی ہے۔ فریق مخالف نے چیف جسٹس آف انڈیا پر دباؤ بنایا جس کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا نے ناراضگی کے لہجے میں کہا کہ اگر انہیں فیصلہ صادر کرنے نہیں دیا گیا تو وہ چیمبر میں جاکر فیصلہ صادر کریں گے ۔آج عدالت میں پانچ عرضداشتیں سماعت کے لیئے پیش ہوئی تھی جس میں سے چار عرضداشتوں نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے کا عدالت سے مطالبہ کیا ہے جبکہ جمعیۃعلماء ہند کی پٹیشن میں عدالت سے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی حفاظت اور موثر نفاذ کی عدالت سے درخواست کی گئی ہے۔آج عدالت نے مسلم فریق کی جانب سے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کو نوڈل ایڈوکیٹ مقرر کیا ہے یعنی کے اب مسلم فریق کی جانب سے عدالت میں داخل کیئے جانے والے تمام دستاویزات اعجاز مقبول کے معرفت ہی عدالت کے ریکارڈ پر جائیں گے۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے آج عدالت میں پورے ملک میں مسلم عبادت گاہوں کے خلاف داخل مقدمات کی تفصیل جمع کرائی جس کا ذکر عدالت اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے ۔آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن ، ایڈوکیٹ یوسف ہاتم مچھالہ، ایڈوکیٹ ورندا گروور ، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول ، ایڈوکیٹ صغیر اے خان،ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سوستک بنرجی، ایڈوکیٹ وکرم نارائن، ایڈوکیٹ عقیل خان، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ سیف ضیاء ، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر موجود تھے۔سپریم کورٹ آف انڈیا میں2020 میں پلیس آف ورشپ قانون1991 کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے ، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈوکیٹ ) نامی شخص نے داخل کی تھی۔ سادھوؤں کی ایک تنظیم کی جانب سے بھی اس قانون کو ختم کرنے کی درخواست داخل کی گئی ہے ۔ ان دنوں پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیئے جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مداخلت کی عرضداشت داخل کی گئی ہے۔عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے کے لیئے ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے بھی پٹیشن داخل کی ہے ۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کا نمبرسول رٹ پٹیشن 782/2022 ہے جس پر عدالت نے 9؍ ستمبر 2022 کو مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ اس قانون کی حفاظت کے لیئے جمعیۃ علماء واحد تنظیم ہے جس نے خصوصی پٹیشن داخل کی ہے اور اس قانون کو ختم کرنے والی پٹیشن پر ہونے والی پہلی ہی سماعت پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون پیش ہوئے تھے تب سے لیکر ابتک جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے اس مقدمہ کی پیروی کی جارہی ہے، آج کی سماعت میں صرف پانچ پٹیشنرکی درخواستیں لسٹیڈ تھی جس میں صرف جمعیۃعلماء ہند نے قانون کو باقی رکھنے کا مطالبہ کیا تھا اورباقی چارنے ورشپ ایکٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔جمعیۃ علماء ہند کے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کے بعد دیگر مسلم تنظیمیں بطور مداخلت کار فریق بنی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ اس مقدمہ کو گلزاراعظمی مرحوم نے جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے داخل کیا تھا ان کے انتقال کے بعد مولانا اسجدمدنی نائب صدر جمعیۃعلماء ہند اس کیس کے پٹیشنر بنے۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر