Latest News

کب تک ہم اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کرتے رہیں گے؟12سال بعد جیل سے با عزت بری ہونے کے باوجود دارالعلوم دیوبند کے سابق طالب علم سجادالرحمن ایک مرتبہ پہر مصیبت میں گرفتار۔

کب تک ہم اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کرتے رہیں گے؟
12سال بعد جیل سے با عزت بری ہونے کے باوجود دارالعلوم دیوبند کے سابق طالب علم سجادالرحمن ایک مرتبہ پہر مصیبت میں گرفتار۔
(شاہنوازبدرقاسمی) آج دیر شام جموں وکشمیر کے ضلع کشتواڑ کے کوچھال سے میرے موبائل نمبر پر ایک کال آئی، ریسیو کرنے پر پتہ چلا دارالعلوم دیوبند کے سابق طالب علم سجاد الرحمن کشمیری کے والد غلام قادر وانی صاحب بول رہے ہیں، خیریت دریافت کرنے کے بعد کہنے لگے مجھے ایک مرتبہ پھر آپ کی مدد کی ضرورت ہے، میں نے ان سے کہا کیا ہوگیا کہنے لگے ہمارا بیٹا سجادالرحمن 12سال بعد فیض آباد جیل سے باعزت بری ہونے کے بعد ایک مرتبہ پہر مصیبت میں ہے آپ نے اس کی رہائی میں میری مدد کی تھی اس لئے دوبارہ زحمت دیا ہوں_

واضح رہے کہ مولوی سجادالرحمن کو 23 نومبر 2007کو لکھنؤ فیض آباد سیریل بم دھماکہ کے الزام میں 22دسمبر 2007کو ان کے آبائی وطن سے اس وقت گرفتار کیا تہا جب وہ دارالعلوم دیوبند میں سال عربی ہفتم کے طالب علم تہے، اس گرفتاری پر یوپی اے ٹی ایس نے کئی بڑے بڑے جھوٹے دعوے کئے تھے اور آخر کار 12سال کی طویل عدالتی جدوجھد کے بعد آخرکار 19نومبر 2019کو سجادالرحمن کو فیض آباد عدالت سے اس کیس میں یہ کہتے ہوۓ بری کردیا گیا کہ عدالت کے پاس ملزم سجادالرحمن کو موجودہ کیس سے جوڑنے کیلئے ثبوت یا دیگر مواد نہیں ہے اس لئے سجاد کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں ہوتا- عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم سجاد کے خلاف IPC کی دفعہ B 306,124 A 115 121123, 120 اور دھماکہ خیز مادہ ایکٹ کی دفعہ ACT- UAPA 3,4,5,6 اور 20کے تحت کیس درج نہیں کیا گیا کیونکہ اس کے خلاف مندرجہ ذیل بالا کیس کیلئے کوئی بہی شواہد نہیں پیش کئے گئے لہذا سجادالرحمن کو اس کیس سے بری کیا جاتا ہے اور یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ اسے فوری رہا کیا جاۓ-

19نومبر 2019کو جب سجادالرحمن جیل سے 12سال بعد باعزت بری ہوگئے تو اس وقت سجاد نے مجھے خود کال کرکے شکریہ ادا کیا جب ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کی گرفتاری کی اصل وجہ کیا تھی تو کہنے لگے میری گرفتاری اس کیس کے ملزم مرحوم خالد مجاہد کی وجہ سے ہوئی تہی کیوں کہ جب خالد مجاہد کو گرفتار کیاگیا تو تفتیش کے دوران متعصب افسران نے انہیں خوف زدہ کرکے کہاکہ تم بچ جاؤ گے کسی کشمیری کو جانتے ہو اس پر انہوں نے میرا نام بتادیا اور کہاکہ ایک مرتبہ سجادکشمیری سے دیوبند میں ملاقات ہوئی ہے بس اسی بات پر میری بہی گرفتاری ہوگئی حالانکہ اس کیس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تہا جس دن یہ سیریل بم دھماکہ ہوا تہا ہم اس دن بہی دارالعلوم دیوبند میں حاضر تھے الحمدللہ آج ہم باعزت بری ہوگئے لیکن مجھ جیسے بہت سے بے قصور افراد جیلوں میں بلاوجہ قید و بند کی زندگی جینے پر مجبور ہیں_
سجادالرحمن کی رہائی کے بعد ایک مرتبہ یوگی سرکار کی طرف سے آلہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ پیچ میں 17اگست 2020کو اس کیس کی دوبارہ سنوائی کیلئے درخواست دی گئی تہی جسے ہائی کورٹ نے منظور کرلیا ہے_

 اب سوال یہ ہے کہ ایک بے قصور طالب علم جس کی اصل زندگی تباہ کر دی گئی بڑی جدوجھد اور کوششوں کے بعد باعزت بری بہی ہوگئے اسے سرکاری سطح پر معاوضہ ملنے کے بجائے ایک مرتبہ انہیں الجھانے اور آزمائش میں ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے جو یقیناً بیحد تکلیف دہ ہے کیوں سجاد کے والد ایک معمولی درجے کا کسان ہے اور اس مصیبت کا انہوں نے 12سال تک کیسے مقابلہ کیا ہے وہ تو ایک مظلوم باپ کا دل ہی جانتا ہے اللہ سے دعا ہے کہ سجادالرحمن کو دوبارہ پھسانے کی جو کوشش ہورہی ہے وہ ناکام ثابت ہو اور اب وہ ایک نئی زندگی جی سکے، فی الحال وہ عدالتوں کا چکر لگا لگاکر پریشان ہے اگر کوئی اس مصیبت زدہ کی مدد کرسکتے ہیں تو ضرور کیجئے کیوں اس ملک میں بے گناہ ہونا بہی ایک جرم ہے_

بقلم: شاہنواز بدر قاسمی( ممتاز صحافی اور نامور سماجی و ملی شخصیت۔)

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر