Latest News

شاہی جامع مسجد گورکھپور کے امام عبدالجلیل مظاہری کے انتقال پر تعزیتی نشست کا اہتمام، مولانا قاری محمد طیب قاسمی نے کیا رنج وغم کا اظہار۔

شاہی جامع مسجد گورکھپور کے امام عبدالجلیل مظاہری کے انتقال پر تعزیتی نشست کا اہتمام، مولانا قاری محمد طیب قاسمی نے کیا رنج وغم کا اظہار۔
                   مولانا قاری طیب قاسمی

آنند نگر مہراج گنج (رپورٹ عبید الرحمن الحسینی) 
شہر گورکھپور کی بزرگ شخصیت و شاہی جامع مسجد کے امام وخطیب مولانا عبدالجلیل مظاہری کے انتقال پر دارالعلوم فیض محمدی ہتھیا گڈھ میں ایک تعزیتی نشست ادارہ کے سربراہ اعلیٰ مولانا قاری محمد طیب قاسمی کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔جس میں تمام اساتذہ کرام وطلبہ نے شرکت کرتے ہوئے تلاوت قرآن وآیات کریمہ کے ورد کے ذریعہ مرحوم کے حق میں ایصال ثواب کیا ۔
  اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے دارالعلوم فیض محمدی کے سربراہ اعلیٰ مولانا قاری محمد طیب قاسمی نے کہا کہ: مولانا عبد الجلیل مظاہری اہل گورکھپور کے لئے کوہ نور تھے ، ان کا شمار پروانچل کی مشہور شخصیات میں ہوتا تھا، وہ ایک لمبے عرصے سے موذی امراض میں مبتلا تھے، گذشتہ شب اس دار فانی سے کوچ کرگئے، اناللہ وانا الیہ راجعون، اللہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، آمین۔ مولانا کاانتقال ، امت مسلمہ بالخصوص اہالیان گورکھپور کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے، یقینا یہ ایسا غم ہے، جو ایک دولمحہ کا نہیں بلکہ صدیوں کا غم ہے، کیوں کہ شہر گورکھپور نے ایک ایسا چراغ شب تاب کھویا ہے، جس سے ایک دنیا روشن تھی۔اس وقت یہ کہا جائے کہ علم وفن کا ایک بحر ذخار، سلوک و تصوف کا چشمہ خشک ہوگیا اور علم وادب ، اخلاق وتصوف کا چمن اجڑگیا، تو مبالغہ نہ ہوگا۔
  دارالعلوم کے ناظم اعلیٰ مولانا سعد رشید ندوی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ: بلاشبہ مولانا کا انتقال پوری ملت اسلامیہ کے لئے عموماً اور ہمارے مجلہ” ماہ نامہ احیاء اسلام ،، کے لئے خصوصاً ایک دل دوز سانحہ ہے، کیوں کہ مرحوم ایک طویل عرصے سے مجلس مشاورت میں فائض ہوکر رسالے کی سرپرستی اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہے۔ یقینا آپ کے انتقال سے شہر کے تمام ادبی و علمی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے، میرا خیال ہے کہ مرحوم نہ صرف یہ کہ جامع مسجد کے امام تھے کے بل کہ ایک ممتاز خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب مرشد بھی تھے۔ آپ کا شمار مظاہر العلوم کے ممتاز فضلاء میں ہوتا تھا، رسوخ علم اور اپنے صلاح وتقویٰ کی بنیاد پر کئی دہائیوں سے بڑی یکسوئی کے ساتھ امامت وخطابت کے فرائض انجام دہی کے ساتھ ساتھ اصلاحی میدانوں میں قابل قدر کارنامے انجام دیتے رہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو اپنے زہد وپرہیزگاری اور غیرمتنازع شخصیت بن کر شہر کی علمی وادبی حلقوں میں جو شہرت اور عزت ملی، وہ دوسروں کے حصہ میں کم آتی ہے ۔
  دارالعلوم کے مہتمم مولانا محی الدین قاسمی ندوی نے اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ :مولانا مظاہری اپنی ذات میں ، ایک انجمن تھے۔ شہر کے دینی اسٹیجوں پر گلدستہ کی طرح سجائے جاتے تھے، اور لوگ دل وجان سے ان سے محبت کرتے تھے، گوکہ آپ رائے بریلی کے ر ہنے والے تھے، لیکن اپنی بڑی خوبصورت اور شاندار امامت کے ذریعہ شہر کے عوام کے دلوں میں بسے ہوئے تھے، یہ عزت وتوقیر کا سلسلہ دم واپسیں تک باقی رہا، بلاشبہ مولانا کی موت سے شاہی جامع مسجد کے ممبر ومحراب کا جو خسارہ ہواہے اس کا پر ہونا نا ممکن تو نہیں ، البتہ مشکل ضرور دکھائی دے رہا ہے۔ اس مصیبت کی گھڑی میں دارالعلوم فیض محمدی واقراءفاونڈیشن مرحوم کے اہل خانہ کے غم میں شریک ہے، اور سوگوار کنبہ سے تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہے، اللہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے۔آمین۔
 اس تعزیتی نشست کے موقع پر طلباءکے علاوہ اساتذہ کرام میں ، مفتی احسان الحق قاسمی، نائب مدیر : ماہ نامہ احیاءاسلام ،، مولانا محمد سعید قاسمی، مولانا وجہ القمر قاسمی، مولانا ڈاکٹر محمد اشفاق قاسمی، مولانا محمد انتخاب ندوی، مولانا محمد صابر نعمانی، مولانا شکرا اللہ قاسمی، مولانا محمد یحیٰ ندوی ، قاری حافظ ذبیح اللہ ، ماسٹر جاوید احمد ، ماسٹر محمد عمرخان، ماسٹر فیض احمد وغیرہ شریک تھے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر