Latest News

امیر الہند حضرت مولانا ارشد مدنی کے بیان پر چند معروضات: یاسر ندیم الواجدی

امیر الہند حضرت مولانا ارشد مدنی کے بیان پر چند معروضات:  یاسر ندیم الواجدی
حضرت مولانا سید ارشد مدنی مد ظلہ العالی نے جب سے سدرشن ٹی وی کو انٹرویو دیا ہے، تب سے سوشل میڈیا پر اس انٹرویو کے ناقدین اور حامیوں کے درمیان واضح خلفشار نظر آرہا ہے۔ جب تک حضرت کی طرف سے وضاحت نہیں آئی تھی، اس وقت تک انٹرویو کے حامیین ہاتھ ہلکا رکھے ہوے تھے، وضاحت آتے ہیں ان کے سُر بھی بدل گئے۔ 

حضرت مولانا دامت برکاتہم کے مطابق سدرشن ٹی وی نے ان کا انٹرویو دھوکے سے لیا ہے، مجھ سمیت جن لوگوں کو یہ انٹرویو نامناسب لگا ہے انھیں حضرت کا منصب ومقام ہی عزیز ہے۔ ان کے نزدیک بھی حضرت، ملت اسلامیہ ہندیہ کی صف اول کے قائد ہیں۔ اس صف میں کم از کم میرے نزدیک، حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی اور حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی جیسے اکابر شامل ہیں۔ ہماری یہ قیادت مسلمانوں کے سروں کا تاج ہے اور وہ اس تاج کو دشمنوں کے استہزاء کا نشانہ بنتے دیکھنا نہیں چاہتے۔ 

صف اول کی قیادت کو ایسے ہی مسائل میں میڈیا کے روبرو ہونا چاہیے، جو بہت حساس اور پالیسی سازی سے متعلق ہوں۔ مثلا چند ہفتوں پہلے طلبہ کا مسئلہ نے عالمی توجہ حاصل کرلی تھی اور مقامی وبیرونی میڈیا میں ان کو دیوبند سے براہ راست جوڑا جارہا تھا۔ ایسے موقع پر حضرت مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کے بروقت اور شاندار انٹرویو نے تمام اعتراضات کو یک لخت ختم کردیا تھا۔ اگر یہی بات کوئی اور کہتا تو شاید وہ اثر نہ ہوتا۔ صف اول کی اس قیادت کی یہ پالیسی ہونی چاہیے کہ میڈیا کے افراد کی ان تک پہنچ نہ ہو، اگر کسی حساس ترین مسئلہ پر ذرائع ابلاغ کا کوئی نمائندہ رابطہ کرے تو اس کے بیک گراؤنڈ سے واقفیت کے بعد ہی انٹرویو دیا جائے۔  

دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر خاص وعام کی ان حضرات تک بذریعہ فون پہنچ ہے۔ لوگ سیدھے ان کو کال کرتے ہیں، اور ان کی نجی گفتگو کو وائرل کردیتے ہیں، یہ ایک مجرمانہ عمل ہے اور ایسے لوگ عند اللہ ماخوذ ہوں گے۔ اس حرکت کا یہی علاج ہے کہ ان کبار علما کے سیکرٹری حضرات/مشیران یا صاحب زادگان واحفاد میں سے کوئی اس ذمے داری کو پورا کرے اور اپنی صواب دید سے یہ طے کرے کہ کس سے بات کروانی ہے اور کس سے نہیں۔ 

دور کیوں جائیں، آر ایس ایس کی مثال سامنے ہے۔ میڈیا کا سامنا کرنے کے لیے موہن بھاگوت کبھی خود کو پیش نہیں کرتا۔ آر ایس ایس کے پاس منجھے ہوے ترجمان ہیں اور وہی میڈیا ڈبیٹس میں شرکت کرتے ہیں یا انٹرویوز دیتے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی نامناسب بات زبان سے نکل بھی جائے تو اس کو سنبھالنا آسان ہوتا ہے، لیکن اگر مسلمانوں کے سب سے بڑے قائد کی زبان سے کوئی نامناسب بات نکل جائے، تو اس کا اثر بہت دور تک جاتا ہے۔ امید ہے کہ ان مخلصانہ معروضات کو قابل توجہ سمجھا جائے گا۔

مولانا یاسر ندیم الواجد ی کے فیس بک پیج سے۔

Posted By: Sameer Chaudhary

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر