Latest News

کشمیر کے حالات پر جواب دیں مودی اور شاہ: حسام صدیقی

کشمیر کے حالات پر جواب دیں مودی اور شاہ: حسام صدیقی
اداریہ: جدید مرکز، لکھنؤ، مؤرخہ ۱۷ تا ۲۳ اکتوبر، ۲۰۲۱

تقریباً چھبیس مہینے قبل پانچ اگست ۲۰۱۹ کو نریندر مودی سرکار نے جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی آئین کی دفعہ ۳۷۰ ختم کی تھی۔ پارلیمنٹ چل رہی تھی اس کے باوجود پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر کوئی بحث نہیں ہوئی تھی۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ان سے کہیں زیادہ ان کے وزیر داخلہ امت شاہ نے دفعہ ۳۷۰ ہٹائے جانے کے بعد ہونے والے فائدوں پر خوب لفاظی کی تھی۔ دعویٰ کیا تھا کہ دفعہ ۳۷۰ ہٹنے کے بعد جموں کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوجائے گی، ہر شہری جموں کشمیر میں زمین جائیدادیں خرید سکے گا اور جو وہاں رہنا چاہے گا اسے وہاں کا ڈومیسائل اسٹیٹس دیا جائے گا،پوری ریاست میں ترقی کا سیلاب سا لایا جائے گا اور پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کو کنٹرول کیا جائے گا۔ جموں کشمیر اور لدّاخ کو دو الگ الگ یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا تھا تاکہ لیفٹنٹ گورنر کے ذریعہ مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ جموں کشمیر اور لدّاخ پر سیدھے راج کرسکیں وہ کر بھی رہے ہیں لیکن ان وعدوں اور لفاظیوں کا کیا ہوا جو پانچ اگست ۲۰۱۹ کو پارلیمنٹ سے سڑک تک کی گئی تھیں۔
یہ سال کشمیر کے لئے بہت ہی خراب اور بدترین ثابت ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ۹۲- ۱۹۹۰ جیسی دہشت گردی جموں کشمیر میں پھر واپس آ گئی ہے۔ کیونکہ ایک بار پھر دہشت گرد عام شہریوں کو اپنا نشانہ بنانے لگے ہیں، اسکول میں داخل ہو کر دہشت گردوں نے ایک سکھ خاتون پرنسپل اور ایک ہندو ٹیچر کو گولی مار دی اسی کے ساتھ اکتوبر کے پہلے چھ دنوں میں دہشت گردوں نے آٹھ شہریوں کو اپنے وحشی پن کا نشانہ بنا کر مار ڈالا آخر ان شہریوں کا قصور کیا تھا؟ اس سال یکم جنوری سے سات اکتوبر تک اٹھائیس کشمیری شہری دہشت گردوں کا شکار بنے ہیں ان میں اکیس مسلمان ہیں باقی سات میں پانچ کشمیری ہندو اور سکھ اور دو غیر کشمیری ہندو شامل ہیں۔ یہ دونوں تجارت کرنے یا ملازمت کرنے کشمیر آئے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کے مارے جانے کے باوجود جموں کشمیر انتظامیہ اور مرکزی وزارت داخلہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اب سردی کا موسم آگیا ہے جیسے جیسے سردی میں اضافہ ہوگا دہشت گردوں کی حرکتوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔
گیارہ اکتوبر کو پونچھ کے پیر پنجال علاقہ کے سورن کوٹ میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر ایک جونیئر کمانڈنگ افسر(جے سی او) کی قیادت میں فوج کی ایک ٹکڑی تلاشی لینے پہونچی تو دہشت گردوں نے آرمی ٹیم پر حملہ کرکے سی جے او سمیت پانچ فوجیوں کو شہید کردیا آخر اس کے لئے کون ذمہ دار ہے اب تک جموں کشمیر پر امت شاہ کی حکومت کے چھبیس مہینوں سے زیادہ کا وقت ہوچکا ہے۔ اب وہاں دفعہ ۳۷۰ بھی نہں ہے جو مودی سرکار کے مطابق دہشت گردوں سے لڑنے میں بڑی رکاوٹ تھی پھر اب آئے دن اس طرح لوگوں اور فوجیوں کی جانیں کیوں جارہی ہیں۔ حیرت ناک بلکہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیراعظم نریندر مودی پوری طرح خاموش ہیں اب آخر وہ یہ کیوں ن ہیں بتاتے کہ دفعہ۳۷۰ ختم ہونے کے جو فائدے انہو ںنے چھبیس مہینے پہلے بڑے فخر سے بتائے تھے اس کا کیا ہوا؟
مودی سرکار نے دفعہ ۳۷۰ ختم کرتے وقت کہا تھا کہ اب ملک کا کوئی بھی شہری کشمیر میں زمین جائیدادخرید سکے گا اور وہاں کی سکونت حاصل کرسکے گا اس دعوے بلکہ لفاظی کی حقیقت یہ ہے کہ چھبیس مہینوں میں صرف اور صرف ایک شخص نے وہاں زمین خریدی اور سکونت حاصل کی ہے۔ وہ بھی کشمیر وادی میں نہیں بلکہ جموں ریجن میں خریدی ہے اس ایک شخص کے علاوہ دوسرے کسی نےجموں میں بھی زمین خریدنے کی ہمت نہیں کی ہے۔ سرکار اور بی جے پی نے یہ بھی لفاظی کی تھی کہ دفعہ۳۷۰ ختم ہونے کے بعد کشمیری پنڈت بھی واپس اپنے وطن جا کر اپ نے آبائی مکانات میں رہ سکیں گے۔ پنڈتوں کی واپسی تو دور ابھی تک ان کی واپسی کا کوئی پروگرام تک نہیں بنا ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے نام پر ممبئی میں سرکار کی دلالی کرنے والے اشوک پنڈت جیسے لوگ بھی وزیراعظم مودی اور بی جے پی کی تعریفوں میں روز لفاظی کرتے رہتے تھے اب ان کی بھی آواز بند ہے اور وہ  خاموشی کے ساتھ کشمیری پنڈتوں کے نام پر کھا کما رہے ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کی واپسی تو دور سات اکتوبر کو ایک سکھ اسکول پرنسپل اور ایک ہندو ٹیچر کے مارے جانے کے بعد کشمیر وادی میں رہ رہے کئی ہندو کنبے وادی چھوڑ کر جموں چلے گئے امت شاہ کو شائد ان کی خفیہ ایجنسیوں نے اس کی اطلاع نہیں دی۔
اسکول کی سکھ پرنسپل اور ایک ہندو ٹیچر کے دن دہاڑے مارے جانے کے شرمناک واقعہ کے بعد ملک کے غلام میڈیا نے ایک نیا شوشا چھوڑ دیا اور خبریں براڈ کاسٹ کی جانے لگیں کہ کشمیر میں تو اقلیتوں یعنی سکھوں اور ہندوؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر اس سال مارے گئے اٹھائیس لوگوں میں اکیس مسلمان ہیں تو ان کے مارے جانے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ وہ تو پیدا ہی مارے جانے کے لئے ہوئے ہیں چاہے انہیں دہشت گرد مارے یا پھر سکیورٹی فورسیز کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ ا نتہائی شرمناک بات ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے کشمیریوں کو بھی ہندو مسلم چشمہ سے دیکھا جائے لیکن دیکھا جارہا ہے۔ اس سے حالات ٹھیک ہونے والے نہیں ہیں بلکہ اور زیادہ خراب ہی ہوں گے۔ ملک کا میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلوں کو کم سے کم دہشت گردوں اور دہشت گردی سے لڑنے میں مثبت رویہ اختیار کرنا چاہئے۔
ملک کے غلام ٹی وی چینلوں نے مودی کے ہسٹری شیٹر منسٹر آف اسٹیٹ ہوم اجئے مشرا عرف ٹینی کے بیٹے ابھیشیک کا معاملہ کمزور کرنے کے لئے یہ خبریں بھی چلانی شروع کردیں کہ لکھیم پور کو تو اپوزیشن پارٹیوں خصوصاً کانگریس نے سیاسی ٹورزم بنا دیا ہے۔ لیکن کشمیر کوئی نہیں جارہا ہے۔ ان بے شرم ٹی وی چینلوں سے اب کون پوچھے کہ لکھیم پور میں ابھیشیک مشرا کی تھار گاڑی نے چار کسانوں اور ایک صحافی کو اپنے غرور میں کچل کر مارڈالا ہے کشمیر میں دہشت گردوں نے عام لوگوں کو مارا ہے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے تو مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ سے سوال کیا جانا چاہئے کہ دفعہ ۳۷۰ ختم ہوئے چھبیس مہینے گزر گئے ہیں آحر ان کی وزارت اپنے وعدے اور دعوے کےمطابق ابھی تک وہاں دہشت گردوں پر قابو کیوں نہیں پارہی ہے۔ انہوں نے تو دعویٰ کیا تھا کہ دفعہ ۳۷۰ ختم ہوگئی اب کشمیر میں رام راج قائم ہوجائے گا۔
 ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت کو کشمیر کے بدتر حالات کی کوئی فکر بھی نہیں ہے اگر ہوتی تو دفعہ ۳۷۰ ختم کرتے وقت سرکار نے جو وعدے کئے تھے انہیں پورا ضرور کرتی مودی اور امت شاہ دونوں نے کہا تھا کہ جلد سے جلد جموں کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دیتے ہوئے اسمبلی کے الیکشن کرائے جائیں گے۔ اگر الیکشن کرا دیئے جاتے تو شائد عوام کے ذ ریعہ منتخب ہوئی جو بھی سرکار ہوتی وہ ان حالات پر قابو تو پاسکتی تھی لیفٹنٹ گورنر اور دہلی میں بیٹھ کر وزیر داخلہ امت شاہ جموں کشمیر کو امن و امان اور کامیابی کے ساتھ نہیں چلا سکتے۔


Post a Comment

0 Comments

خاص خبر