Latest News

سیاست سے دارالعلوم دیوبند کا نہیں ہے کوئی تعلق لیکن اہل سیاست کا دارالعلوم سے ہے گہرا رشتہ۔ دیکھیئے اب تک کتنے لیڈران دے چکے ہیں علماء کے دربار میں حاضری۔

سیاست سے دارالعلوم دیوبند کا نہیں ہے کوئی تعلق لیکن اہل سیاست کا دارالعلوم سے ہے گہرا رشتہ۔ دیکھیئے اب تک کتنے لیڈران دے چکے ہیں علماء کے دربار میں حاضری۔
دیوبند: عظیم دینی دانشگاہ دارالعلوم دیوبند کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کا اظہار مسلسل ذمہ داران دارالعلوم اپنی تحریروں اور تقریروں میں کرتے رہے ہیں لیکن اہل سیاست کا دارالعلوم دیوبند سے گہرا رشتہ ہے۔ 1866 میں ادارے کے قیام کے بعد سے ہی یہاں مسلسل اہل سیاست کا اکابرین دیوبند کے دربار اور خانقاہوں میں حاضری دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کے ممبران کے طور پر ہمیشہ سے کسی نہ کسی سیاست داں کا عمل دخل رہا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کی عظمت اور مرتبہ کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کسی نہ کسی بہانے سے ملک میں ممتاز حیثیت رکھنے والے سیاسی عہدے داران کی آمدورفت رہتی ہے، ابتدائی زمانہ سے یہ سلسلہ جاری ہے، ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد اور ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی سے لے کر ملائم سنگھ یادو، راہل گاندھی اور اکھلیش یادو تک دارالعلوم دیوبند میں حاضری دے چکے ہیں اور اکابرین دیوبند سے ملاقات کرکے خصوصی دعائیں لے چکے ہیں۔ 
سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دارالعلوم کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کی اور اسٹیج سے تقریر بھی کی۔ ان کے علاوہ سابق صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد، سابق گورنر وشواناتھ داس، اکبر علی خان، سر جیمز مسٹن سمیت کئی سیاستدان دارالعلوم کا دورہ کر چکے ہیں۔

دارالعلوم کے قیام کے بعد سے ہی سیاسی جماعتوں کے قائدین وقتاً فوقتاً دارالعلوم کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ سر جیمز مسٹن جو 1915 میں اتر پردیش کے گورنر تھے، دارالعلوم آئے تھے۔ 31 مئی 1938 کو حکومت کے خصوصی ایلچی حافظ محمد ابراہیم دارالعلوم پہنچے تھے۔ 13 جولائی 1957 کو سابق صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے دارالعلوم کا دورہ کیا۔ 23 مارچ 1965 کو یوپی کے سابق گورنر وشواناتھ داس دارالعلوم دیکھنے آئے تھے۔ 1973 کے آخر میں یوپی کے سابق گورنر اکبر علی خان دارالعلوم پہنچے تھے ۔ 13 اپریل 1977 کو سابق صدر فخر الدین علی احمد دارالعلوم آئے تھے۔ 1980 میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی دارالعلوم کی صد سالہ کی تقریب کے لیے خصوصی دعوت پر یہاں پہنچی تھیں اور انھوں نے اسٹیج سے تقریر بھی کی تھی۔ 

ان کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد، جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے والد شیخ عبداللہ، اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ این ڈی تیواری بھی دارالعلوم يا دارلعلوم دیوبند کے اکابرین سے ملاقات کرنے دیوبند آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سال 2005 میں ایس پی سربراہ ملائم سنگھ یادو نے سابق مہتمم مولانا مرغوب الرحمن سے ملاقات کرکے ان سے دعائیں لی تھی۔ 2016 اور 2007 میں کانگريس کے سابق صدر راہل گاندھی، سال 2011 میں سابق وزیر اعلیٰ یوپی اکھلیش یادو، سال 2019 میں آر ایس ایس کی اکائی مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینر اندریش کمار بھی دارالعلوم کا دورہ کر چُکے ہیں۔ 

اس کے علاوہ پارٹیوں کے سیکرٹری، جنرل سیکریٹری، رکن پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی دارالعلوم دیوبند میں آمدورفت کی ایک طویل فہرست ہے۔ حلانکہ اہل سیاست کے دارالعلوم دیوبند میں آمد کے کچھ نقصانات سامنے آنے کے بعد ادارے کی طرف سے سال 2017 میں باضابطہ طور پر انتخابی زمانے میں اہل سیاست کے لیے دارالعلوم دیوبند کے دروازے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جو تا ہنوز برقرار ہے اور اسی فیصلے کے تحت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی کی یہاں آمد کو لے کر بھی ذمہ داران دارالعلوم نے ادارے کے موقف کا اظہار کیا تھا۔ جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر کئی طرح کی بحث جاری ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کا کہنا ہے کہ دارالعلوم دیوبند خالص دینی ادارہ ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن دارالعلوم دیوبند کے دروازے ہمیشہ سبھی کے لئے کھلے ہیں۔ مگر ادارے کی پالیسی کے تحت انتخابی زمانے میں ادارے کے ذمہ داران اہل سیاست سے ملاقات نہیں کرتے ہیں۔

 اسپیشل: سمیر چودھری۔(دیوبند ٹائمز)

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر