Latest News

ظفریاب جیلانی : وکالت سے قیادت تک : تحریر معصوم مرادآبادی

ظفریاب جیلانی : وکالت سے قیادت تک : تحریر معصوم مرادآبادی
لکھنؤ سے میرے کرم فرما مجاہد حسین سید نے اپنی وال پر ظفریاب جیلانی ایڈووکیٹ کی تازہ تصویر شیئر کی ہے۔ یہ برین ہیمریج کے بعد ہوئے دماغی آپریشن اورعلاج معالجہ کے بعد صحت یابی کے فوراً بعد کی تصویر ہے، جس میں وہ کافی بدلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔اس تصویر کو دیکھ کر مجھے ظفریاب جیلانی کی وہ پرانی تصویر یاد آئی ہے جو انھوں نے اب سے کوئی35 برس پہلے مجھے اس وقت دی تھی، جب میں نے ان سے بابری مسجدتنازعہ پر ایک تفصیلی انٹرویو لیا تھا۔ میں نے اسے اپنے ریکارڈ میں تلاش کیا تو وہ تصویر مجھے مل گئی، جسے یہاں تازہ تصویر کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ برین ہیمریج کے بعد وہ بہت بڑے مرحلے سے گزرے ہیں اور انھیں ایک طرح سے نئی زندگی ملی ہے۔
ظفریاب جیلانی یوں تو ایک وکیل کے طورپر جانے جاتے ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر ان کی شناخت یہ ہے کہ وہ تمام سرکردہ مسلم تنظیموں اور اداروں سے سرگرمی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ وابستگی اس وقت سے ہے جب انھوں نے 70 کی دہائی میں ایک طالب علم کے طورپر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ اس تحریک میں ان کے سرگرم ساتھیوں میں پروفیسر اخترالواسع، جاوید حبیب،بصیراحمدخاں، اعظم خاں اور زیڈ کے فیضان وغیرہ شامل تھے۔یہیں سے ان کی شناخت ایک ملی نمائندے کے طور پر ابھری۔ اس کے بعد وہ شاہ بانو معاملے میں مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی تحریک میں شریک رہے، لیکن ان کو اصل شہرت بابری مسجد کیس میں حاصل ہوئی۔
 1986میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد لکھنؤ میں جو ایکشن کمیٹی بنی تھی، ظفریاب جیلانی اس کے بانی کنوینر تھے۔ان سے میری بیشتر ملاقاتیں اسی تحریک کے مختلف پروگراموں کے دوران ہوئیں۔مجھے یاد ہے کہ بابری مسجد بازیابی تحریک کے دوران جب دہلی میں مرحوم صلاح الدین اویسی کی کوٹھی میں ایکشن کمیٹی کی میٹنگیں ہوا کرتی تھیں تووہ ان میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔وہ ہمیشہ میٹنگ کے دن مشتاق احمدصدیقی ایڈووکیٹ کے ساتھ لکھنؤ میل سے علیٰ الصباح دہلی پہنچ جایا کرتے تھے۔میٹنگ کے خاتمہ پر وہی انگریزی میں اس کا پریس نوٹ تیار کرتے تھے۔ مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ اس پریس نوٹ کو انگریزی اخبارات کے دفاتر تک پہنچاؤں، جو بیشتر رفیع مارگ پر واقع آئی این ایس بلڈنگ میں واقع تھے۔اس زمانے میں ای میل اور فیکس کی سہولت نہیں تھی اور ایکشن کمیٹی کے پاس کوئی عملہ اور وسائل بھی نہیں تھے، اس لیے اس پریس ریلیز کو دستی طورپر اخباروں کے دفتروں تک پہنچانا میرے ذمہ تھا تاکہ وہ اگلے دن کے اخباروں میں شائع ہوسکیں۔میں اس زمانے میں ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ کا نامہ نگار تھا۔ ان میٹنگوں کی تفصیلی خبریں اور بابری مسجد تحریک کے لیڈران کے سب سے زیادہ انٹرویوز ’نئی دنیا‘ میں ہی شائع ہوتے تھے، جو اس وقت اردو کا سب سے زیادہ مقبول اخبار تھا۔ان میٹنگوں میں ظفریاب جیلانی کے علاوہ مولانا مظفرحسین کچھوچھوی، صلاح الدین اویسی، اعظم خاں، مولانا سید احمد بخاری،جاوید حبیب، مشتاق احمد صدیقی ایڈووکیٹ، عبدالمنان ایڈووکیٹ، ڈاکٹر شفیق الرحمن برق اور مولانا ادریس بستوی وغیرہ شریک ہوتے تھے۔رابطہ کمیٹی اور اور ایکشن کمیٹی کی مشترکہ میٹنگیں بھی اکثر اویسی صاحب کی اسی کوٹھی میں ہوتی تھیں۔ جس میں سیدشہاب الدین کے علاوہ مولانا سید احمدہاشمی، جماعت اسلامی کے مولانا افضل حسین اور مولانا شفیع مونس بھی شریک ہوتے تھے۔ جب کوئی وفد حکومت سے مذاکرات کے لیے جاتا تھا تو اس میں مسلم لیگ کے صدر ابراہیم سلیمان سیٹھ اور جنرل سیکریٹری غلام محمود بنات والا بھی شامل ہوجاتے تھے۔ان تمام پروگراموں اور میٹنگوں کی پریس ریلیز جیلانی صاحب ہی تیار کرتے تھے اور خود ہی ایک پرانے ٹائپ رائٹر پر ٹائپ بھی کرتے تھے۔ اس تحریک میں جو لوگ ان کے دست و بازو کی طرح تھے ان میں قمرعالم ( ایٹہ) مولانا یسین عثمانی( بدایو ں ) مشتاق علی خان( شاہجہانپور) اور ملک عظیم اللہ خاں(آگرہ) وغیرہ شامل تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک موقع پر ایکشن کمیٹی اور بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے ممبران کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ یہ سلسلہ کافی دنوں تک جاری رہا۔ اسی درمیان ایک انٹرویو کے دوران سیدشہاب الدین نے مجھ سے ایک جملہ کہا تھا، جو آج تک میری یادداشت میں محفوظ ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ظفریاب جیلانی کی شناخت ایک دن اہم مسلم لیڈر کے طورپر ضرور ہوگی۔اس بات کو یہاں نقل کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اب جبکہ اس قبیل کے معدودے چند لوگ ہی بقید حیات ہیں، ان میں ظفریاب جیلانی ہی واحد شخص ہیں، جو سب سے زیادسرگرم نظرآتے ہیں ۔ میں نے انھیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ،آل انڈیا ملی کونسل، جمعیۃ العلماء ہند کی میٹنگوں میں خاصا سرگرم دیکھا ہے۔ وہ لکھنؤ کے بیشتر مسلم تعلیمی اداروں سے بھی سرگرمی کے ساتھ وابستہ ہیں۔وکالت کے ساتھ ساتھ ملی اور تعلیمی امور میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ بابری مسجد بازیابی تحریک اور بابری مسجد کے مقدمے کی پیروی کے دوران جہاں انھیں خاصی شہرت حاصل ہوئی ہے، وہیں بعض لوگوں نے ان پر کچھ الزامات بھی لگائے۔ بابری مسجد کا مقدمہ ہارنے کے بعد بھی انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن انھوں نے ان الزامات پر ہمیشہ خاموشی کو ہی ترجیح دی ہے۔
سماجوادی پارٹی کے لیڈر ملائم سنگھ یادو اور ان کے بیٹے اکھلیش یادو سے ان کے قریبی مراسم رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں سماجوادی کی پچھلی سرکار کے دوران ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل بنایا گیا تھا۔یہ قربت آج بھی برقرار ہے۔ظفریاب جیلانی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کا ہوم ورک بہت مضبوط ہوتا ہے۔ وہ ریکارڈ اور فائلوں کو بھی بہت حفاظت سے رکھتے ہیں۔ وہ برسوں سے شوگر کے مریض ہیں، جس نے ان کے دانتوں پر منفی اثر ڈالا ہے، مگر وہ تمباکو والا پان بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔وہ ابھی پوری طرح صحت یاب تو نہیں ہوئے ہیں، لیکن پچھلے ہفتہ انھوں نے لکھنؤ میں منعقدہ عیدمیلاد النبی کے جلسے میں شرکت کرکے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔ خدا انھیں مکمل صحت عطا فرمائے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر