Latest News

چار دن پٹنہ اور لکھنئوکے نام: ودود ساجد

چار دن پٹنہ اور لکھنئوکے نام:  ودود ساجد
(انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم "ردعمل") 
اس ہفتہ کے چار قیمتی دن مسلسل بھاگ دوڑ اور انتہائی مصروف سفر میں گزرگئے۔ سفر تفریح طبع کا ذریعہ نہیں ہوتا۔تاہم زحمت کے باوجود میں سفر کو رحمت کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔یہ سفر ادارہ کی انتظامی ضرورت کے تحت طے ہوا تھا۔میرے ساتھ انقلاب کے مارکیٹنگ ہیڈ (شمالی ہند) عارف محمد خان بھی تھے۔ بنانے والوں نے بہت سوچ سمجھ کرپلان بنایا تھا۔پہلے ہمیں پٹنہ جانا تھا جہاں سے انقلاب کے تین ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔دو دن کی مصروفیات کے بعد لکھنئو جانا تھا جہاں سے پانچ ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔

بہار بڑا مردم خیز صوبہ ہے۔اس کی راجدھانی پٹنہ میں بھی بڑے تاریخی ادارے اور تنظیمیں موجود ہیں۔ ہرجگہ جانا اور ہر شخصیت سے ملنا ممکن نہیں تھا۔لیکن میرے مرحوم رفیق کار مولانا عبدالقادر شمس قاسمی کے بھائی عبدالواحد رحمانی اور سہرسہ میں وژن انٹرنیشنل اسکول کے بانی مولانا شاہ نواز بدر قاسمی نے سفر کی کامیابی میں تعاون کیلئے کچھ اہم ملاقاتوں کا اہتمام کیا تھا۔

ابھی تو اتنی سردی بھی نہیں ہوئی کہ جہاز دھند کے سبب ’لیٹ‘ ہوجائیں لیکن15نومبرکی صبح دہلی سے پٹنہ کیلئے ہمارا جہاز تین گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوا اور یوں ہماری تمام میٹنگیں آگے پیچھے ہوگئیں۔امارت شرعیہ کے متعدد ذمہ داران نے بڑا پُرخلوص استقبال کیا۔امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی پٹنہ میں نہیں تھے لیکن ان کی ہدایت پر پوری ’امارت‘ موجود تھی۔ان کے چھوٹے بھائی انجینئر فہد رحمانی نے بڑی تفصیل سے ادارہ کی تکنیکی تربیتی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔

میں مرحوم مولانا ولی رحمانی اور ان سے پہلے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی حیات میں امارت شرعیہ کا دورہ کرچکا تھا۔مولانا رحمانی مرحوم نے بہار کے حوالہ سے اس ملت کے نوجوانوں کی تکنیکی تربیت کا جو نظم قائم کردیا ہے وہ بڑا اہم ہے۔اس ادارہ نے درجنوں نوجوانوں کو باعمل مسلم انجینئر بناکر ملک اور ملک سے باہر پھیلا دیا ہے۔یہ سن کر اطمینان ہوا کہ امارت شرعیہ کے ٹیکنکل اداروں میں داخل ہر طالب علم کیلئے نماز‘روزہ کی پابندی لازمی ہے۔کورونا نے دنیا بھر کے معاشی حالات کو ابتر بنادیا ہے۔اس کا اثر دینی اداروں پر بھی پڑا ہے۔ایسے ٹیکنکل ادارے تو اور بھی زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔مخیر مسلمانوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔
 
پٹنہ کے دورہ کا سب سے خوبصورت‘ روح افزاء اورحیرت انگیز تجربہ ’حج بھون‘ میں جاکر ہوا۔15نومبر کو بعد نماز مغرب حج بھون میں بہار کے متحرک وفعال اور باشرع آئی اے ایس افسر عامر سبحانی سے وقت طے تھا۔ان سے مل کر دیر تک اس امر کا احساس ہوتا رہا کہ اتنے بڑے ملک میں ملت صرف ایک ہی عامر سبحانی پیدا کرسکی۔ان کے خاموش مگر ٹھوس کارنامے دیکھ کریہ خواہش ہوتی ہے کہ ملک کے چار گوشوں میں محض چار عامر سبحانی ہوجائیں تو ایک ہمہ جہت خوشگوار انقلاب برپا ہوجائے۔وہ شرپسندوں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہتے ہیں لیکن بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار انہیں بہت عزیز رکھتے ہیں۔انہوں نے سرکاری بجٹ سے‘ حج بھون میں‘ بہار پبلک سروس کمیشن کی تیاری کیلئے جو شاندار سینٹر قائم کیا ہے اس کی جزئی تفصیلات کیلئے یہ کالم کافی نہیں ہے۔اس سینٹر کا معیاری انتظام دیکھ کربہت خوشی ہوئی۔ ایسے اداروں کی سرگرمیوں کی تفصیلات کو پورے ملک کے سامنے لانے کیلئے انقلاب کے صفحات حاضر ہیں۔ بہار کی سرزمین بڑی تاریخی ہے۔وہاں بہت سے تاریخی خطے اور مقامات ہیں۔میں نے بہار کے تمام نمائندوں سے گزارش کی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے تاریخی اداروں اور تاریخی شخصیات پر بھی کام کریں۔

پٹنہ کا حج بھون دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔یہ ایک چھوٹا سا‘ صاف ستھرا اورخوبصورت گلدستہ ہے جس میں ہر پھول اپنی الگ شناخت‘ اپنی خوشبواور اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔یہیں شیعہ اور سنی وقف بورڈز کے دفاتر بھی ہیں۔16نومبر کو یہاں شیعہ وقف بورڈ کے نومنتخب چیرمین افضل عباس سے بھی ملاقات ہوئی۔ ایک شخصیت ایسی ہے کہ جس سے 15نومبر کو تفصیلی ملاقات ہوجانے کے باوجود 16نمبر کو پھر ملنے کو جی چاہا۔محمد راشد حسین بہار پبلک سروس کمیشن کے افسر ہیں۔وہ حج بھون کے سی ای او بھی ہیں۔ان سے مل کر یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ محمد راشد حسین ہیں یا عامر سبحانی۔صرف ظاہری قدوقامت ہی ایک ایساعنصر ہے جوان دونوں کو جدا کرتا ہے۔ان کے افکاراور ان کے تجربات سن کر انہیں افسرسے زیادہ متقی سمجھنے کو جی چاہتا ہے۔ان کا انتظام اور ان کا انکسارایک دوسرے سے متصادم رہتا ہے۔ 

بہار کے دورہ کا سب سے اہم حصہ عامر سبحانی سے ملاقات اوراس دورہ کا ماحصل حج بھون اور اس کی خدمات ہیں۔امید ہے کہ انقلاب کی ٹیم حج بھون کے کارناموں سے ملک بھر کے قارئین کو بھی واقف کرائے گی۔اس دورہ میں ادارہ شرعیہ سے وابستہ اور ایم ایل سی مولانا غلام رسول بلیاوی‘ رحمانی 30 کی طرز پرایکسیلنس اکیڈمی قائم کرنے والے حاجی احسان الحق اور امارت شرعیہ کے سابق ناظم مولانا انیس الرحمن قاسمی سے بھی خصوصی ملاقات ہوئی۔حج بھون پولیس میں بھرتی کی بھی تیاری کراتا ہے۔پٹنہ کا کوئی پولیس اسٹیشن ہوگا جہاں رشوت ستانی سے پاک کم سے کم ایک خدا ترس پولیس کانسٹبل متعین نہ ہو۔

اگلا پڑائو لکھنئو تھا۔
لکھنئو نے مجموعی طور پر بہت اطمینان بخشا۔یہاں کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر جیلانی خان نے شہر کی 50 سے زیادہ معزز شخصیات کو انقلاب کے دفتر میں مدعو کر رکھا تھا۔ان میں بہت سے وہ نامور زعماء بھی تھے جن سے ملنے لوگ انہی کے در پر جاتے ہیں۔شرمندگی بھی ہوئی اورخوشی بھی کہ یہ عظیم شخصیات اس خاکسار کی محبت میں ملنے چلی آئی تھیں۔اس میٹنگ کی تفصیلات آپ انقلاب کی 18نومبر کی اشاعت میں پڑھ چکے ہیں۔ مولانا خالد رشید فرنگی محلی‘ پروفیسر شارب ردولوی‘ الیاس اعظمی‘ مولانایوسف حسینی‘ مولانا سبطین نوری‘ مرزا شفیق حسین شفق‘ مولانا رضا حسین‘ اطہر نبی‘ اترپردیش اردو اکیڈمی کے سیکریٹری زہیر بن صغیر (آئی اے ایس) اور ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری بطورخاص آئے تھے۔

ان عمائدین نے اردواخبارات کے فروغ کیلئے بڑے قابل عمل مشورے دئے۔مجھے بہت خوشی ہوئی کہ کچھ احباب نے اخبار کی بعض خامیوں کی نشاندہی بھی کی۔بعد نماز عشاء میں شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد کی رہائش گاہ‘غفران مآب پر پہنچا اور ان سے تفصیلی گفتگو کی۔انہوں نے بڑی محبت اور دعائوں سے نوازا۔ وہ خود چل کر گھر کے باورچی خانہ سے چائے لے کر آئے۔ محمد خالدایک ایسی شخصیت ہیں کہ طب یونانی کے حوالہ سے ان کی ملی خدمات کے کارنامے حیرت انگیز ہیں۔ان پر کسی اور دن تفصیل سے لکھنا مناسب ہوگا۔ 

18نومبر کو واپسی سے دو گھنٹے پہلے یوپی کے بیورو چیف حسن ابراہیم کاظمی نے میسج کیا کہ1773 میں تعمیر آصفی امام بارگاہ کا اسٹاف گلدستہ لئے انتظار کررہا تھا اوراب آپ کے نہ آنے سے مایوس ہے تو میں نے بھیڑ بھاڑ کے باوجود خطرہ مول لے کرامام بارگاہ کا دورہ کیا۔یہاں کی جامع مسجد کے امام جمعہ وجماعت مولانا کلب جواد ہیں۔یہ اتنی بڑی تاریخی عمارت حکومت کے تسلط میں ہے۔یہاں بے ہنگم جوڑے ہماری بے بسی اورعمارتوں کے تقدس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ انقلاب اس نکتہ پر مہم چلانے کو تیار ہے۔

18نومبر کی صبح آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی سے ملاقات طے تھی۔انقلاب کی کلیدی ٹیم کے ساتھ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔مولانا نے طے شدہ وقت سے زیادہ وقت دیا اور انتہائی پُرخلوص مشوروں سے نوازا۔انہوں نے انقلاب کی پسندیدگی کے کئی اسباب بھی بتائے۔یہ بھی بتایا کہ میڈیا کو اس تاریک دور میں کیا کرنا چاہئے۔اس کی تفصیلات بھی آپ 19نومبر کی اشاعت میں پڑھ چکے ہیں۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء کے پرنسپل اور عربی ادب کی عبقری شخصیت مولانا سعید الرحمن اعظمی سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ان سے کسب فیض کرکے رخصت ہونے کا ارادہ تھا کہ ایک ایسی شخصیت نے اپنے سحر کے حصار میں لے لیا کہ اگر ان سے ملاقات نہ ہوئی ہوتی تو ندوہ کے دورہ کی سند سے محروم ہی رہتے۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ صاحب طرز ادیب وعالم اورمصنف وقلم کاراورندوہ کے وائس پرنسپل مولانا عبدالعزیز بھٹکلی بھی ندوہ میں ہیں۔انہوں نے ایک گھنٹے کی اضافی ملاقات میں جہاں بہت کچھ دین اور دنیا سکھائی وہیں وہ ہمیں یہ’احساس جرم‘ بھی کراتے رہے کہ ہمارے منصوبہ میں ان سے ملاقات شامل نہیں تھی۔لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ہمارا راستہ روک لیا کہ وہ ایک گھنٹے سے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔وہ 53 سال سے ندوہ کی ہمہ جہت خدمات انجام دے رہے ہیں۔وہ ندوہ سے کوئی مشاہرہ نہیں لیتے۔ سچی بات یہ ہے کہ ندوہ کی چمک‘دمک اورچہک انہی کے دم سے ہے۔

گھر سے باہر نکل کر قرآنی ہدایت سیروا فی الارض کی عملی تفسیر کا دوسرا پہلو بھی مشاہدہ میں آتا ہے۔میرے عدم استحقاق کے باوجود پٹنہ اور لکھنئو کے زعماء ملت نے مجھے جو پذیرائی بخشی میرے پاس اس کا کوئی بدل نہیں ہے۔ بس یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ انقلاب ہر طرح کے ظلم اور شرپسندی کے خلاف آواز بلند کرتا رہے گا اور ضرورت پڑی تو اس میں اور شدت پیدا کرے گا۔۔۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر