Latest News

زرعی قوانین کی واپسی کاسبق"- تحریر: معصوم مرادآبادی

"زرعی قوانین کی واپسی کاسبق"- تحریر: معصوم مرادآبادی
آخرکار حکومت کو کسانوں کے آگے جھکنا ہی پڑا۔ ایک سال پہلے پارلیمنٹ سے زور زبردستی پاس کرائے گئے متنازعہ زرعی قوانین کوواپس لینے کا اعلان خود وزیراعظم نریندرمودی نے کیا۔ انھوں نے جمعہ کی صبح قوم کے نام خصوصی خطاب میں کہا کہ”آج میں پورے دیش کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مہینے کے آخر میں شروع ہورہے پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہم ان تینوں قوانین کو واپس لینے کا دستوری عمل پورا کردیں گے۔“

اس طرح وزیراعظم نے ازخود ان متنا زعہ قوانین کی واپسی کا اعلان کیا، جنھیں اب تک انھوں نے اپنے وقار کا مسئلہ بنا رکھا تھا۔اس سے یہی ثابت ہوا کہ جمہوریت میں عوام ہی سب سے اہم ہوتے ہیں اور رائے عامہ کے سامنے حکومت کا غرور کوئی معنی نہیں رکھتا۔ شاید یہ آزاد ہندوستان کی پہلی سرکار ہے جو یہ تاثر پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے کہ اس کا کیا ہوا ہر کام اور ہر فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے۔ مگر جمہوریت بلاشبہ ایک ایسا نظام حکومت ہے جو عوام کے ووٹوں سے، عوام کے لیے، عوام کے ذریعہ ہی چلایا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی جن حکومتوں نے اقتدار کے گھمنڈ میں من مانی کرنے کی کوشش کی ہے، وہ نشان عبرت بنادی گئی ہیں۔
 متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسان گزشتہ ایک سال سے تحریک چلارہے تھے۔انھوں نے اس دوران بہت سی مصیبتوں کا مقابلہ کیا۔ شدید سردی اور بارش کے موسم میں بھی وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلے۔
 اپنے اتحاد اور عزم سے انھوں نے پورے ملک میں ان قوانین کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کیا۔ لیکن حکومت اپنی ساری توانائی ان قوانین کی خوبیوں کو بیان کرنے میں لگاتی رہی۔حکومت کا خیال تھا کہ کسان اپوزیشن کے آلہ کار ہیں اور دیر سویر ہتھیار ڈال دیں گے۔ بعد میں کسان تحریک کی کامیابی دیکھ کر حکومت متنازعہ قوانین میں ترمیم پر تو راضی ہوگئی تھی،لیکن مکمل واپسی میں اسے اپنی توہین محسوس ہورہی تھی۔یہی وجہ ہے کہ کسانوں کے اصل مطالبات پر کان دھرنے کی بجائے انھیں بدنام کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔انھیں خالصتانی، موالی اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔حکمراں جماعت کے عام کارکن ہی نہیں ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے ہوئے وزیر بھی ان کے خلاف بھڑاس نکالنے میں پیچھے نہیں تھے۔ایسا لگتا تھا کہ کسانوں نے ان کی دُم پر اپنا پاؤں رکھ دیا ہے۔حالانکہ کسانوں کی تحریک پوری طرح پرامن تھی اور وہ گاندھیائی طریقوں سے احتجاج کے جمہوری حق کا استعمال کررہے تھے، لیکن ایسا کوئی الزام نہیں تھا جو انھیں بدنام کرنے کے لیے نہ لگایا گیا ہو۔ ان کے حوصلوں کو توڑنے کے لیے تشدد کا راستہ بھی اختیار کیا گیا۔ان میں پھوٹ ڈالنے کی بھی کوششیں ہوئیں اور انھیں راستوں سے ہٹانے کے لیے کچلا بھی گیا۔ اس سلسلہ کا سب سے دردناک واقعہ پچھلے دنوں اترپردیش کے لکھیم پورکھیری میں پیش آیا، جہاں ایک مرکزی وزیر کے بیٹے نے دھرنے پر بیٹھے کسانوں پر اپنی گاڑی چڑھادی۔ اس سانحہ میں کئی کسانوں کی موت واقع ہوگئی۔ مجموعی طورپر اس تحریک کے دوران ۷۰۰ سے زیادہ کسانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ المیہ یہ ہے کہ حکومت کے کسی کارندے نے ان کی موت پر ایک آنسو بھی نہیں بہایا۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس حکومت کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ اقتدار کے گھمنڈ میں کسی کوخاطر میں نہیں لاتی۔ جو لوگ اس کے خلاف زبان کھولتے ہیں، ان کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف تحریک میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، وہ سبھی آج سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ انھیں شمال مشرقی دہلی کے فساد کا ماسٹرمائنڈ قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمات قایم کئے گئے تاکہ انھیں ضمانت ہی نہ مل سکے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بی جے پی اپنے سیاسی اور نظریاتی مخالفین کے ساتھ وہی سلوک کررہی ہے جو اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران کیا تھا۔کسانوں کی تحریک کے دوبڑے مراکز تھے۔ ان میں پہلا مرکز پنجاب تھا اور دوسرا یوپی۔ ان دونوں ہی صوبوں میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ پنجاب میں اس وقت کانگریس کی سرکار ہے، جبکہ اترپردیش میں خود بی جے پی اقتدار میں ہے۔بی جے پی چاہتی ہے کہ وہ ایک طرف پنجاب کو کانگریس کے ہاتھوں سے چھینے تو وہیں یوپی میں دوبارہ اقتدار میں واپس آجائے۔کسان تحریک کے انتخابی سیاست پر اثرانداز ہونے کا احساس بی جے پی کو حالیہ ضمنی الیکشن میں بہت شدت کے ساتھ ہوا۔ اپنے اقتدار والے صوبے ہماچل پردیش میں وہ اسمبلی کی تین اور پارلیمنٹ کی ایک سیٹ کانگریس سے ہارگئی۔ کہا جاتا ہے کہ ہماچل میں سیب کی کاشت کرنے والے کسانوں نے بی جے پی کو ہرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یوں تو آئندہ چند مہینوں میں پانچ صوبائی اسمبلیوں میں چناؤ ہونے والے ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت اترپردیش اور پنجاب ہی کی ہے۔ مغربی یوپی کے کسانوں میں بی جے پی کے خلاف جو ماحول ہے، اس نے یوگی سرکار کے ہاتھ پاؤں پھلا دئیے تھے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے حکومت کے ہرظلم اور ناانصافی کا مقابلہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ کیا۔انھوں نے کسانوں کو واپس گھروں کو جانے کی وزیراعظم کی اپیل کو ٹھکراتے ہوئے کہا ہے کہ کسان اس وقت تک اپنی جگہوں سے نہیں ہٹیں گے، جب تک پارلیمنٹ سے باقاعدہ ان قوانین کو رد کرنے کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔انھوں نے اس موقع پرکہا کہ سرکارایم ایس پی کے ساتھ ساتھ کسانوں کے دیگر مطالبات پربھی بات چیت کرے۔اس طرح یہ واضح ہوگیا کہ کسان ابھی اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور وہ اس وقت تک اپنی جگہوں سے نہیں ہٹیں گے جب تک پارلیمنٹ سے ان قوانین پر واپسی کی مہر نہیں لگ جاتی۔
زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان ہونے کے بعد شہریت ترمیمی قانون کو بھی واپس لینے کے مطالبات میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جو ملک گیر احتجاج ہوا تھا اس کا مرکز دہلی کا شاہین باغ تھا، جہاں لاکھوں کا ہجوم امڈآیا تھا اور یہ جگہ قاہرہ کے تحریر اسکوائر کی طرح دنیا بھر میں مشہور ہوگئی تھی۔ اس دوران ملک میں کورونا کی وبا نے زور پکڑلیااور سپریم کورٹ کے سہارے اس تحریک کو ختم کردایا گیا۔لیکن شہریت ترمیمی قانون میں مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی جو کوشش کی گئی ہے، اس پر لوگوں کا غصہ برقرار ہے۔حکومت کو بھی اس کا احساس ہے کہ یہ تحریک دوبارہ زور پکڑ سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ شاہین باغ میں پولیس آج بھی پہرہ دے رہی ہے۔کسانوں کی طرح اس تحریک کو بدنام کرنے کے لیے بھی تمام ہتھکنڈے اختیار کئے گئے۔عالمی شہرت حاصل کرنے والی اس تحریک کو جزوی کامیابی تو حاصل ہوئی، لیکن اس کے اہم کرداروں کی گرفتاری نے اس کی دھار کسی حد تک کمزور کردی۔ضرورت اس بات کی ہے شہریت ترمیمی قانون میں کی گئی فرقہ وارانہ ترمیم کو رد کرانے کے لیے ایک بار پھر حکومت کو مجبور کیا جائے۔ بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اس قانون کو بھی زرعی قوانین کی طرح ازخود واپس لینے کا اعلان کرے۔
زرعی قوانین کی واپسی میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا۔اس کا سب سے اہم سبق یہی ہے کہ جمہوری نظام میں اتحاد واتفاق اور صبر وتحمل سے ہی تحریکیں پروان چڑھتی ہیں۔سی اے اے قانون کے خلاف عوامی تحریک کسی قیادت اور رہنمائی کے بغیر اپنے عروج تک پہنچی۔ مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت اس میں ایک تماش بین کے طورپر شریک ہوئی۔ اس نے اپنی مصلحتوں کے تحت اس میں کوئی سرگرم کردار ادا نہیں کیا۔ کسان تحریک کی کامیابی کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہمیں اپنے مسائل حل کرنے کے لیے حکمت عملی اور صبروتحمل کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہنا ہوگا۔ خدااعتمادی اورخود اعتمادی کے ساتھ پیش قدمی کرنے سے ہی مسائل کا حل نکلے گا۔ ہرطرح کا خوف اور کمزوری دل سے نکالنا ہوگی۔ ہم اپنے اندر اتحاد واتفاق پیدا کرکے ہی منزل کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔یہی کسان تحریک کی کامیابی کا سب سے بڑا سبق ہے۔

مضمون نگار ملک کے ممتاز صحافی اور نامور قلمکار ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر