Latest News

پروفیسر اخترالواسع : ایک تاثر---تحریر: معصوم مرادآبادی

پروفیسر اخترالواسع : ایک تاثر---تحریر: معصوم مرادآبادی
کسی ایسی شخصیت پرقلم اٹھانا خاصا مشکل کام ہے،جو زندگی کے مختلف میدانوں میں مختلف شناختوں کے ساتھ پہچانی جاتی ہو۔ پروفیسر اخترالواسع ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں کہ جس محفل میں ہوتے ہیں، اس کی روح بن جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ اصطلاح مشاعروں میں استعمال ہوتی ہے کہ فلاں شاعر نے تو واقعی مشاعرہ لوٹ لیا، لیکن میں نے اکثر پروگراموں میں  پروفیسر اخترالواسع کو تن تنہا محفل کو لوٹتے ہو ئے دیکھا ہے۔ 
وہ اپنے سامعین سے شاعروں کی طرح داد کا مطالبہ تو نہیں کرتے، لیکن اپنے غیرمعمولی بیانئے اور قافیہ آرائی سے محفل کے ہرفردکا دل ضرورجیت لیتے ہیں۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی کو ناراض کرنے کا جوکھم نہیں اٹھاتے اور ہر کس وناکس کی حوصلہ افزائی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ پروفیسر اخترالواسع کا اصل نام راحت بن حیرت ہے، جو ان کے والد حیرت بن واحد سے مماثل ہے۔ ان کے قریبی رشتے دار انھیں آج بھی’راحت‘کہہ کر ہی پکارتے ہیں، لیکن علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں وہ صرف پروفیسر اخترالواسع کے نام سے ہی مشہور ہیں۔عام طورپر پروفیسر سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے خشک علمی اکتسابات سے لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اردو میں ایسے پروفیسروں کی بھرمار ہے، لیکن پروفیسر اخترالواسع کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی دلنشین گفتگو اور بیانئے سے محفل پر چھا جانے کا ہنر جانتے ہیں۔حالانکہ ان کا کوئی پیشہ ورانہ تعلق اردو سے نہیں ہے، لیکن جب وہ اردو محفلوں میں اسٹیج پرگویا ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ انھوں نے اردو کا سارا کلاسیکی ادب گھول کر پی رکھا ہے۔
 انھیں اردو شعروادب، مطالعات اسلامی، تصوف، سوانحی اور عمرانی ادب سے خاص شغف ہے۔ کوئی چالیس برس جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ  مطالعات اسلامی میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد بھی ماشا’اللہ پوری طرح تروتازہ ہیں اور عمر کی 70 بہاریں دیکھنے کے باوجود پوری طرح چاق وچوبند بھی۔اس عمر میں بھی ان کے بالوں میں اوریجنل سیاہی موجود ہے اور وہ خضاب کے محتاج نہیں۔چہرے کی ہشاشت اور بشاشت کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ انشاء اللہ برسوں یونہی ہنستے اور مسکراتے ہوئے زندگی کی پل صراط سے گزرتے رہیں گے۔
وہ ہر محفل کی ضرورت ہیں اور انھیں ان محفلوں میں شریک ہونا ہی سب سے زیادہ پسند ہے۔ اگر کسی روز وہ اخبار کی سرخیوں میں نظر نہ آئیں تو ان کے بارے میں میری جستجو بڑھ جاتی ہے، لیکن وہ اگلے ہی روز کسی محفل کی شان بڑھاتے ہوئے اور اردو زبان اور تہذیب کے دریا بہاتے ہوئے نظر آجاتے ہیں۔وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ اردو سے ان کا کوئی پیشہ ورانہ رشتہ نہیں ہے بلکہ وہی رشتہ ہے جو ماں کے دودھ سے ہوتا ہے۔وہ ماں، مٹی اور مذہب سے یکساں پیار کرتے ہیں۔
یوں تو ان سے میری شناسائی اتنی ہی پرانی ہے، جتنی کہ صحافت سے میری وابستگی کا دورانیہ، لیکن ان کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع اس وقت زیادہ ملا جب وہ دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین تھے اور میں اس کی گورننگ کونسل کا ایک ادنیٰ رکن۔ان کی شخصیت کا ایک خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ دوسروں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل نکالنے کا ہنر جانتے ہیں اور مسائل کی گتھیوں میں نہیں الجھتے۔ وہ بلا کے صاف گو بھی ہیں، لیکن کسی کو ناراض کرنے سے ہرممکن گریز کرتے ہیں۔جو لوگ ان پر تنقید کرتے ہیں، ان کے بارے میں بھی وہ کبھی لب کشائی نہیں کرتے۔میں نے ایسے موقعوں پرانھیں ہمیشہ محتاط گفتگو کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ لوگوں کی خامیوں سے زیادہ ان کی خوبیوں کے خوشہ چیں ہیں اور غیبت سے ایک ایسے دور میں بھی بچنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں،جب ہرمحفل کا مرغوب موضوع ہی یہی ہے۔
انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی تحریک کے دوران پورے ملک کی خاک چھانی اور جگہ جگہ عوامی جلسے کئے۔ انھیں اس تحریک کے دوران داروگیر کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ یہاں تک کہ ایمرجنسی کے دوران وہ بدنام زمانہ قانون ’میسا‘ کے تحت مہینوں جیل میں بھی رہے، لیکن ان کے پائے استقامت میں کوئی لعرزش نہیں آئی۔ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی تحریک میں جو لوگ ان کے شانہ بشانہ تھے،ان میں جاوید حبیب،ظفریاب جیلانی، عارف محمدخاں اور قیصرمحمود شامل ہیں۔ علی گڑھ کے وہ طلباء جن کی تربیت یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی تحریک کے دوران ہوئی ہے، ان میں تقریر کی لذت تو پائی جاتی ہے، لیکن اس قبیل کے صرف دوہی لوگوں میں مجھے تحریر کی بھی وہی لذت دیکھنے کو ملی۔ ان میں پہلی شخصیت تو میرے محترم دوست مرحوم جاوید حبیب کی تھی اور دوسری پروفیسر اخترالواسع کی ہے، جوتحریر پر بھی وہی ملکہ رکھتے ہیں، جو انھیں تقریر پر حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین اورکالم بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔
وہ علی گڑھ کے بیشتر لوگوں کی طرح نری جذباتی تقریر تو نہیں کرتے، لیکن اپنی دانشورانہ باتوں سے لوگوں کو اس طرح قائل کردیتے ہیں کہ ان کے سامنے کسی کاجادو نہیں چلتا۔مسلم یونیورسٹی میں اپنے  تعلیمی سفر کے دوران انھوں نے ’علی گڑھ ٹائمز‘ اور ’ہم نوا‘ کے نام سے دوجریدے بھی نکالے اور اس دوران ’علی گڑھ کے شب وروز‘کے عنوان سے کالم بھی لکھے۔انھیں صحافت سے شروع سے ہی شغف رہا ہے۔ وہ ساتویں دہائی کے شروع میں ’قومی آواز‘، ’نوجیون‘ اور نیشنل ہیرالڈ‘ جیسے اخباروں کے نمائندے رہے۔ اس کے علاوہ پریس ایشاء انٹر نیشنل کے لیے باضابطہ نمائندگی کے فرائض بھی انجام دئیے۔ انھیں دیوان بریندر ناتھ ظفرپیامی، جمیل مہدی اور محمدمسلم جیسے جید صحافیوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔اس کے علاوہ مسلم مجلس کے بانی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی سے بھی قریب رہے۔
 انھوں نے علی گڑھ سے اسلامک اسٹڈیزاور دینیات میں ایم اے اور ایم ٹی ایچ کی اسناد حاصل کیں اور ترکی کی استنبول یونیورسٹی سے ترکی زبان کی سند بھی لی۔ کچھ عرصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں درس تدریس کے فرائض انجام دے کر دہلی آگئے اور یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ مطالعات اسلامی میں چالیس سال خدمات انجام دے کر سبکدوش ہوئے ۔اس دوران وہ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیزکے سربراہ اور ’اسلام اور عصرجدید‘ کے مدیر بھی رہے۔سبکدوشی کے بعد انھیں درگاہ خواجہ اجمیری کا ذمہ داربنایا گیا۔بعدازاں انھوں نے دہلی اردواکادمی کے وائس چیئرمین اور حکومت ہند کے لسانی کمشنر کی ذمہ داریاں بھی خوش اسلوبی سے نبھائیں۔ 2013 میں انھیں پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔اردو، انگریزی اور ہندی میں ان کے متعدد مضامین، کالم اور کتابیں شائع ہوئیں۔ کچھ اہم اردو کتابوں میں ’سرسید کی تعلیمی تحریک‘،یروشلم شہرمقدس سے شہر مصلوب تک‘،اور ’مولانا محمدعلی جوہر:شعلے کی سرگزشت‘ قابل ذکر ہیں۔پروفیسر اخترالواسع دراصل صلح کل کے حامی ہیں اور ہر مکتب فکر اور مسلک کے لوگوں میں یکساں مقبول ہیں۔ وہ خود کو ہر سانچے میں ڈھالنے اور پھر اس کے طلسم سے خوبصورتی کے ساتھ خود کوباہر نکالنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
  ان کی جنم بھومی علی گڑھ تو کرم بھومی جامعہ ملیہ اسلامیہ ہے۔وہ علی گڑھ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد یونیورسٹی میں ایک معمولی ملازم تھے۔ انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے شہرت اور مقبولیت حاصل کی، لیکن اپنی غربت کے پس منظر کو ہمیشہ یاد رکھا اور اسے کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ان کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ وہ ہمیشہ زمین سے جڑے رہے ہیں اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو انھوں نے قبول کیا ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تادیر انھیں صحت وعافیت کے ساتھ سلامت رکھے اور وہ یونہی محفلوں کی رونق بنے رہیں۔

مضمون نگار ممتاز صحافی اور روزنامہ جدید خبریں کے مدیر اعلیٰ ہیں۔

Posted By: Sameer Chaudhary

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر