Latest News

تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے اورنگ آباد سے ممبئی پہنچی ترنگا یاترا، جلسہ عام سے اسدالدین اویسی کا خطاب، کہا "مسلم ریزرویشن ہر قیمت پر لے کر رہیں گے"

تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے اورنگ آباد سے ممبئی پہنچی ترنگا یاترا، جلسہ عام سے اسدالدین اویسی کا خطاب، کہا "مسلم ریزرویشن ہر قیمت پر لے کر رہیں گے"
ممبئی: (نازش ہما قاسمی) مسلم ریزرویشن ہر قیمت پر لے کر رہیں گے، خواہ اس کے لیے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑی یہ تھا ایم آئی ایم کی چاندیولی میں منعقدہ ریلی میں مقررین کی تقریروں کا لب لباب۔ ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی، امتیاز جلیل ایم پی، فیاض احمد،ڈاکٹر وقار قادری، وارث پٹھان اور دیگر مقررین نے مہاوکاس اگھاڑی حکومت میں شامل کانگریس، شیوسینا اور این سی پی کو جم کر لتاڑا اور الزام لگایا کہ مسلمانوں کے ووٹوں کے ذریعہ اقتدار میں آنے والی یہ پارٹیاں مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔
مجلس سربراہ اسدالدین اویسی نے کہاکہ ترنگا ہندوستانی نیشنلزم یعنی راشٹر واد ہندو مسلم اتحاد اور حب الوطنی کی علامت ہے۔ جنہوں نے ہندوستان کی آزادی میں حصہ نہیں لیا وہی لوگ ترنگے کی مخالفت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ انگریزو ہندوستان چھوڑ و کا نعرہ جس نے دیا وہ ممبئی کا مسلمان تھا۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ راہل گاندھی ابھی ممبئی آنے والے ہیں تب بھی ۱۴۴ لگے یا پھولوں سے استقبال کیاجائے گا۔ انہوں نے کہاکہ سب سے اہم بات جو آپ اور ہم نے سب نے سنا مسلم ریزرویشن کے نام پر کانگریس، راشٹر وادی کے بڑے بڑے لیڈرس نے جو بیانات دئیے تھے کہ مہاراشٹر کے مسلمانوں میں جو ۵۵ کاسٹ ہیں انہیں ریزرویشن ملناچاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ ممبرا کے ایم ایل اے کو ہم نے بھوکا رہ کر ووٹ ڈالا لیکن مسلمان اس دسترخوان پر نظر نہیں آتا جس پر ووٹ دیا تھا۔ اس دسترخوان پر تین ہی لوگ بیٹھ کر کھارہے ہیں۔ انہو ںنے مسلمانوں کو کہاکہ آپ کا کام یہ ہے کہ انہیں کھانا پکا کر ہر چیز مہیا کرو لیکن جب کھانا بن جائے تو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھو۔ انہوں نے اس دوران ریزرویشن کا مطالبہ دہراتے ہوئے کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس کی پالیسیوں اور شیوسینا سے ہاتھ ملانے پر تنقید کی۔ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت کا تذکرہ بھی چھیڑا اور مسلمانوں کو ٹاڈا اور دیگر دفعات کے تحت جیلوں میں ڈالے جانے کا معاملہ بھی اُٹھایا۔
انہوں نے کہاکہ سیکولرازم سے ہمیں کیا ملا؟۔ انہوں نے کہاکہ کیا سیکولر ازم کی وجہ سے ہماری مسجد کا تحفظ ہوا ؟ کیا بابری کے ملزم کو سزا ہوئی، مسلمانوں کو ریزرویشن ملا؟ نہیں ملا۔ انہوں نے کہاکہ میں سیاسی سیکولر ازم کو نہیں مانتا ہوں میں صرف آئین میں موجود سیکولر ازم کو تسلیم کرتا ہوں، انہوں نے مسلمانوں کو تلقین کی کے اپنے سیاسی شعور کو بیدار کریں اور اپنی سیاسی قوت پیدا کریں۔ اس سے قبل امتیاز جلیل کی ترنگا یاترا اورنگ آباد سے احمد نگر، پمپری چنچوڑ اور پونہ سے ہوتے ہوئے ممبئی پہنچی ۔ جہاں انہیں روکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ امتیاز جلیل نے چاندیولی جلسہ عام میں خطاب کے دوران طنز کرتے ہوئے کہاکہ ’’وہ سمجھ رہے تھے کہ سرکار میری ہے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں‘‘ انہوں نے کہاکہ میں سمجھ رہا تھا عوام میری ہے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ انہوں نے پوری طاقت لگادی میں یہاں پہنچ نہ سکوں ،میں نے پوری طاقت لگادی اور پہنچ گیا۔ اسی لیے کہہ رہا ہوں ممبئی لو میں آگیا۔ یہ تو بس ایک ہماری آواز پر ہی چھاگئی اتنی بوکھلاہٹ ، یہ تو صرف ایک غراہٹ تھی ابھی دھاڑنا باقی ہے۔ اورنگ آباد سے تقریباً سو دو سو گاڑیوں کا قافلہ لے کر نکلے، ہمیں روکنے کی کوشش کی، میں الحمداللہ اورنگ آباد چھوڑ دیا، احمد نگر سے بھی گزر گیا، پونہ میں بھی رکاوٹ تھی لیکن میں اسے بھی عبور کرگیا۔ لیکن میں نے ۱۳ گھنٹوں کے سفر کے اندر ایک بات کا مجھے احساس ہوا کہ لوگ یو نہی مجلس کو شیروں کو جماعت نہیں کہتے ہیں۔ کچھ تو ہے کہ اتنی طاقت لگادی گئی میں ایک صاف لفظوں کے اندر کہناچاہتا ہوں اپنی بات رکھنے سے پہلے میں مہاراشٹر کے عوام اور یہاں کی پولس کا شکریہ ادا کرناچاہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ جو رکاوٹیں پیدا کی گئی تھی اس میں پولس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ آپ اپنا فرض نبھا رہے تھے، میں اپنا کام کررہا تھا، لیکن کون لوگ تھے جو ان پر دبائو ڈال رہے تھے کہ امتیاز جلیل اور اسدالدین اویسی کو یہاں تک نہیں آناچاہئے۔ میں نے پروگرام کے طے کرنے کے وقت ہی تمام پارٹیوں بشمول کانگریس، راشٹر وادی کانگریس ، سماج وادی پارٹی ، شیوسینا کے لیڈران کو کہا کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کیا اپنے قوم کے ساتھ ہورہی ناانصافیوں کےلیے ایک پلیٹ فارم پر نہیں آسکتے، کیا ہمیں ان مراٹھا بھائیوں سے نہیں سیکھنا چاہئے جنہوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا تو شیوسینا کا مراٹھا ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہو یا این سی پی و کانگریس کا ہو یہ پورے کے پورے میدان میں اترے اور اپنی جماعت کا مفلر پہن کر نہیں اترے مراٹھا بن کر وہاں اترے۔ لیکن ہم نے جب یہی پیغام یہی دعوت نامہ تما م پارٹیوں کے لیڈران کو دیا تو کسی نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ بہت عزت کے ساتھ ہم نے ان لوگوں کو دعوت دی، لیکن بعد میں علم ہوا کہ یہ عزت کے لائق ہی نہیں ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ کیا کرلیں گے، آپ ریزرویشن کا اتنا پرانا معاملہ ہے، وقف کی زمینیں کہاں بچی ہیں، آپ کیوں اتنی محنت کررہے ہیں، کیوں جارہے ہیں، الیکشن کے وقت ایک بات کہی تھی دوبارہ دہرا رہا ہوں منزل ملے نہ ملے یہ مقدر کی بات ہے، ہم کوشش بھی نہ کریں یہ غلط بات ہے۔ 
انہوں نے کہاکہ ہم ریزرویشن کےلیے پوری ایمانداری کے ساتھ کوشش کریں گے، جب ایمانداری کے ساتھ کوشش کرتے ہیں اس کا نتیجہ کیسا ہوتا ہے وہی نتیجہ آج کی شکل میں آپ کا بیٹا یہاں کھڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم یہاں تقریر کرنے کےلیے نہیں آئے ہیں، بلکہ ہم یہاں نصب اسکرین کے ذریعے بتانے والے یہاں کے اس قوم کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ان کی ہی زبانی دکھانے والے ہیں کہ اس قوم کو کس طرح کھلونا بناکر رکھا گیا ہے ربڑ اسٹامپ کی طرح رکھا گیا ہے۔ الیکشن کے وقت مسلمانوں سے ووٹ مانگنے آجائو، سپنے دکھائو، جیت گئے بات ختم ہوگئی ، ہمارا ذکر بھی نہیں ہوتا۔انہوں نے کہاکہ ہمیں نیک نیتی اور یک جہتی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں روکنے کے پیچھے کون لوگ ہیں ، جن کے اندر ڈر اور خوف پیدا ہوچکا ہے مجلس کی وجہ سے یہ جو بیٹھے ہیں، یہ تو ہماری جاگیر تھی، یہ ہمارے علاوہ کہاں جاسکتے ہیں، ان کو ڈر دکھائو، اگر ہمارے ساتھ نہیں آئے تو بی جے پی آجائے گی، شیوسینا آجائے گی، ہم سیکولر ہیں ہمیں ووٹ دو، لیکن جب انہیں یہ احساس ہونے لگا کہ اب یہ قوم بھی بیدار ہوچکی ہے اور اس میں بھی وہ ہمت آچکی ہے کہ کل تم سے یہ سوال کرے گی کہ جس ممبئی ہائی کورٹ نے ۲۰۱۴ کے اندر تمام دستاویزات دیکھے مسلمانوں کے تعلق سے دیکھا بڑا سمجھا تب عدالت نے یہ فیصلہ لیا، حکم جاری کیاگیا کہ مسلمانوں کے ایجوکیشن کا فیصد اس ریاست میں اس ملک کے اندر سب سے کم ہے کیا وجہ ہے کہ آج ہمارے بچے اچھی تعلیم حاصل کرناچاہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے کے باوجود بھی یہ حکومت ریزرویشن کیوں نہیں دے رہی ہے۔ میں اور وارث پٹھان ۲۰۱۴ سے ۲۰۱۹ تک مہاراشٹر ودھان سبھا میں ایم ایل اے تھے، اس وقت کانگریس ، راشٹر وادی کانگریس، سماج وادی پارٹی کے ایم ایل اے کھڑے رہتے تھے اور لڑتے تھے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ فڈنویس سے اور شیوسینا سے لڑتے تھے اور یہ مطالبہ کرتے تھے کہ عدالت نے مسلمانوں کو پانچ فیصد ریزرویشن دیا ہے بی جے پی اور شیوسینا نہیں چاہتی ہے کہ ان کی ترقی ہو مسلمانوں کو ریزرویشن دو ، عدالت نے کہا ہے۔ اتنی زور دار تقریر کرتے تھے کہ مجھے لگتا تھا کہ کتنے ہمدرد ہیں قوم کے ۲۰۱۹ کے بعد تختہ پلٹ گیا اور اب حکومت میں آگئے ہیں، اپوزیشن میں جب تھے تو شیوسینا سے بی جے پی سے مانگتے تھے جن کا مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن جب اقتدار میں تم بیٹھے ہو ، تو تمہیں وہاں پہنچانے کے اندر ان ہی غیور مسلمانوں کا ہاتھ ہے کہ اقتدار آپ کے ہاتھوں میں ہے، لیکن اقتدار کے بعد تیور بدل گئے دوسال سے کوئی ذکر نہیں ، ہم نے انتظار کیا اب کچھ فیصلہ کریں گے، لیکن جب ہم نے اعلان کیا کہ ہم آئیں گے، تم سے سوال کرنے کےلیے تو کیا کیے؟ پولس والوں کو آگے کردئے اور روکاوٹیں ڈالنی شروع کردی۔ انہوں نے کہاکہ سرکار ہم سے ڈرتی ہے اس لیے پولس کو آگے کرتی ہے۔

DT Network

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر