Latest News

میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو عدالت نے سنائی چار سال قید کی سزا۔

میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو عدالت نے سنائی چار سال قید کی سزا۔
ینگون: میانمار کی ایک خصوصی عدالت نے ملک کی معزول رہنما آنگ سان سوچی کو دو مقدمات میں چار سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ حکام کے مطابق سوچی کو یہ سزا اشتعال انگریزی اور کرونا وائرس کی پابندیوں کی خلاف ورزی کا مجرم قرار پانے پر سنائی گئی ہے۔ خصوصی عدالت نے میانمار کے سابق صدر ون مینٹ کو بھی چار سال کی سزا سنائی ہے۔خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار کی جنتا کے ترجمان زا من تان نے کہا ہے کہ آنگ سان سوچی کو دفعہ 505 (بی) کے تحت دو سال اور نیشنل ڈیزاسٹر لا کے تحت دو سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ان کے بقول سابق صدر ون مینٹ کو بھی انہیں الزامات کے تحت چار سال کی سزا سنائی گئی ہے البتہ انہیں ابھی جیل نہیں لے جایا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ سزا پانے والے اس وقت دارالحکومت نے پی تاؤ میں موجود ہیں اور وہ وہیں سے دیگر الزامات کا سامنا کریں گے۔ البتہ انہوں نے اس سے متعلق مزید تفصیل نہیں بتائی۔خیال رہے کہ میانمار میں یکم فروری کو فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے 76 سالہ نوبیل انعام یافتہ آن سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور پارٹی رہنماؤں کو قید کر دیا تھا۔خبر رساں ادارے کے مطابق آنگ سان سوچی کو جن دو کیسز میں سزا سنائی گئی ہے ان میں سے ایک کیس غلط یا اشتعال انگیز معلومات پھیلانا اور دوسرا کرونا وائرس کی پابندیوں کو توڑنے سے متعلق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ لا کی خلاف ورزی کا ہے۔اشتعال انگیزی سے متعلق کیس میں ان پر الزام تھا کہ ان کے اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی حراست کے بعد سوچی کی جماعت کے فیس بک پیج سے بیانات پوسٹ کیے گئے۔ جب کہ کرونا وائرس سے متعلق الزام میں گزشتہ سال نومبر میں انتخابات سے قبل مہم میں ان کی شمولیت تھی۔یہ انتخابات آنگ سان سوچی کی جماعت نے جیت لیے تھے جب کہ فوج کی اتحادی جماعت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا جس پر انہوں نے انتخابات میں دھوکہ دہی کا الزام لگایا تھا۔ البتہ آزاد الیکشن مبصرین کو اس سلسلے میں بڑی بے ضابطگی کے شواہد نہیں ملے تھے۔سوچی کے ٹرائل سے میڈیا کو دور رکھا گیا تھا اور صحافیوں کو خصوصی عدالت میں سماعت کی کوریج سے روک دیا تھا جب کہ سوچی کے وکلا پر بھی میڈیا سے بات کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

خصوصی عدالت میں سوچی کے وکلا نے اشتعال انگیزی کے الزامات کو مسترد کیا۔ البتہ استغاثہ نے سوچی کی پارٹی کے فیس بک بیانات کو بطورِ ثبوت پیش کیا۔سماعت کے دوران وکیل دفاع نے اعتراض اٹھایا کہ سوچی اور سابق صدر ون مینٹ ان بیانات کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں کیوں کہ وہ تو پہلے ہی قید میں تھے۔خصوصی عدالت کا یہ فیصلہ ایک قانونی عہدیدار کی طرف سے سنایا گیا جنہوں نے حکام کی طرف سے سزا کے ڈر سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے پر اصرار کیا۔واضح رہے کہ فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے 10 ماہ بعد بھی اس کی مخالفت جاری ہے اور اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ سوچی کی سزا صورتِ حال مزید کشیدہ کر سکتی ہے۔اتوار کو بھی مظاہرین نے فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور آنگ سان سوچی اور ان کی حکومت کے دیگر افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر