Latest News

ایک حادثہ: ایک سبق ---ودود ساجد

ایک حادثہ: ایک سبق ---ودود ساجد
(انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل )
فوج کے کئی سینئر افسروں اور اپنی اہلیہ سمیت جنرل بپن راوت کا چلے جانا اس ملک کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اس طرح جانا تو اور بھی زیادہ تکلیف دہ اور تشویش ناک ہے۔یہ اس حکومت کا بھی ایک ناقابل تصور نقصان ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑے ’شوق‘ سے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس)کا عہدہ قائم کیا تھا۔اس عہدہ کیلئے جنرل بپن راوت ان کی پہلی اورآخری پسند تھے۔
 
جنرل راوت کے بری فوج کا جنرل رہتے ہوئے ہی یہ بات گشت کرنے لگی تھی کہ ان کی سبکدوشی کے بعد انہی کوسی ڈی ایس بنایا جائے گا۔ ’انڈین آرمی رولز‘کی ترمیم 2019میں اس امرکی کوئی وضاحت نہیں ملتی کہ برسرکار سی ڈی ایس کے ساتھ کوئی انہونی ہوجانے کی صورت میں نئے سی ڈی ایس کے انتخاب کا کیا طریقہ ہوگا۔اسی لئے 8 دسمبرکو حاثہ ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی میڈیا نے یہ بحث شروع کردی تھی کہ اب سی ڈی ایس کون ہوگا۔تینوں افواج کے بہتر تال میل کیلئے سی ڈی ایس کا عہدہ وضع کرنے کی سفارش کارگل جنگ کے خاتمہ کے بعد قائم ایک کمیشن نے کی تھی لیکن اس کو عملی جامہ نریندرمودی حکومت نے پہنایا۔
ہندوستان میں تینوں (بری‘ بحری اور فضائی) افواج میں بری فوج کے سربراہ کو روایتی طورپر برتری حاصل رہی ہے۔اس کا سبب یہ بھی ہے کہ عموماً بری فوج کا جنرل ہی منظرنامہ پر رہتا ہے۔ عددی اعتبار سے بھی بری فوج ہی سب سے بڑی ہوتی ہے۔لفظ جنرل سننے اور پڑھنے میں بھی ایک بھاری بھر کم عہدہ لگتا ہے۔جبکہ بحری فوج کے سربراہ کو ایڈمرل اور فضائی فوج کے سربراہ کو ایر چیف مارشل کہا جاتا ہے۔ سی ڈی ایس کا عہدہ وضع ہونے سے پہلے تک ایک چیف آف اسٹاف کمیٹی (سی اوایس سی)ہوتا تھا اور یہ عہدہ نمبر وار تینوں افواج کے سربراہوں کے درمیان گھومتا رہتا تھا۔لہذا کبھی بری فوج کا سربراہ سی اوایس سی ہوتا تھا‘ کبھی بحری فوج کا اور کبھی فضائی فوج کا۔لیکن دسمبر 2019 میں سی ڈی ایس کا عہدہ وضع ہوجانے کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ا ب تینوں افواج کے سربراہ اپنی اپنی جگہ پر بہت کچھ ہونے کے باوجودسب کچھ نہیں ہوتے اور سی ڈی ایس سے نیچے ہی ہوتے ہیں۔
تینوں افواج کے سربراہوں کی سبکدوشی کی عمر 62 برس ہے۔جبکہ ان کے نائبین 58سال کی عمر میں ریٹائر ہوجاتے ہیں۔کسی بھی فوج کا سربراہ تین سال تک ہی اس عہدہ پر رہ سکتا ہے۔لیکن سی ڈی ایس کی سبکدوشی کی عمر 65برس ہے۔گوکہ اس کی مدت کار بھی تین برس ہے لیکن حکومت اگر چاہے تو ’عوامی مفاد‘ میں اسے توسیع دے سکتی ہے۔یہ وہ نکتہ ہے جس نے بری فوج یا تینوں میں سے کسی بھی فوج کے موجودہ سربراہ کے سی ڈی ایس کے عہدہ تک پہنچنے کا امکان محدود کردیا تھا۔وزیر اعظم کو جنرل راوت بہت پسند تھے اورانہیں جو کام سونپے گئے تھے وہ انہیں بخوبی کر رہے تھے۔انہیں افواج میں اصلاحات اور ایک واضح روڈ میپ تیار کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔اس کے تحت وہ تینوں افواج کے درمیان بہتر اشتراک اورتال میل اور غیر ملکی ہتھیاروں کے نظام پر کم سے کم انحصار کی سمت تیزی کے ساتھ کام کر رہے تھے۔فوجی امور کے ماہررجت پنڈت نے لکھا ہے کہ ان کے اقدامات کی سخت مزاحمت بھی ہورہی تھی لیکن انہوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ انہوں نے ایک ملٹری افسر کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ میٹنگوں میں بہت سخت لہجہ اور رویہ اختیار کرتے تھے لیکن اگر کوئی مضبوط نکات کے ساتھ استدلال کرتا تھا تو وہ اس کو سنتے بھی تھے۔ رجت پنڈت نے یہ بھی لکھا کہ ایک مرتبہ جنرل راوت نے ایک پروگرام میں بحری فوج کے تیسرے جہاز بردار بیڑے کے پرانے مطالبہ کو فضول قرار دیا اور’انٹگریٹڈ تھیٹر کمانڈس‘ پر فضائیہ کی تشویشات کو مسترد کردیا تھا۔رجت پنڈت کے اس دعوے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں افواج میں اعلی سطح پر جنرل بپن راوت کے تئیں بے چینی تھی۔

جنرل راوت‘ ان کی اہلیہ اور دوسرے سینئر فوجی حکام فضائیہ کے جس ہیلی کا پٹر پر سوار تھے اور جو 8 دسمبر کو تامل ناڈو کے سلر علاقہ میں گرکرتباہ ہوگیا اس پر بنانے والوں‘ خریدنے والوں اور چلانے والوں کا صدفیصد بھروسہ تھا۔یہ دنیا کا سب سے محفوظ ترین ہیلی کاپٹر سمجھا جاتا ہے۔اندرون ملک حسب ضرورت اسی ہیلی کاپٹر کو صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم بھی استعمال کرتے ہیں۔2008 میں روسی ساخت کے اس ہیلی کاپٹرکے 80عدد خریدنے کا آرڈر دیا گیا تھا۔ایوی ایشن ایکسپرٹ انگد سنگھ کے مطابق بعد میں یہ تعداد بڑھاکر 150کردی گئی تھی۔ اس کے 15سے لے کر 36 افراد تک کی گنجائش والے متعدد ماڈل ہیں۔یہاں تک کہ ایک ماڈل سامان بردار بھی ہے۔یہ ہیلی کاپٹر چار ہزار کلوکا اضافی وزن لے کرکل 13ہزار کلوتک کے وزن پر اڑ سکتا ہے۔روس سے ان ہیلی کاپٹروں کے کل پرزے ہندوستان لائے گئے تھے جنہیں چنڈی گڑھ کے تین مختلف ڈپوئوں میں جوڑکرتیار کیا گیا تھا۔ہندوستان کا سارا آرڈر کل دس سال میں پورا ہوا تھا۔یہ 1.3بلین امریکی ڈالر کا سوداتھا۔یہ ہیلی کاپٹر 250 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چھ ہزار فٹ بلندی پراڑتا ہے جب کہ ایک عام ہیلی کاپٹر کی زیادہ سے زیادہ رفتار 160کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔انجن سے جڑے ہوئے ٹینک میں اتنا ایندھن آجاتا ہے کہ یہ 675 کلومیٹر تک اڑسکتا ہے۔اس کے علاوہ دو مزید ٹینک بھی نصب کئے گئے ہیں جن کے ایندھن سے یہ مجموعی طورپرایک ہزار 180کلومیٹر کا سفر کرسکتا ہے۔

یہ ہیلی کاپٹر دوران جنگ ہتھیاروں کی نقل وحمل میں بھی کام آتا ہے۔اس کے ذریعہ جوانوں کی حملہ آور ٹیم کو بھی گھات لگانے والے مقام پرخاموشی کے ساتھ پہنچایا جاسکتا ہے۔یہی نہیں یہ کارگو کے کیبن کے اندرجاکر بھی ہتھیار پہنچا سکتا ہے۔اس پرنشانہ پر لگنے والے راکٹ اور توپیں بھی نصب کی جاسکتی ہیں۔ہتھیاروں سے بھرپورکاک پٹ کے ساتھ اسکے او پروہ خود کار دفاعی راکٹ بھی نصب کئے جاسکتا ہیجو ان حملہ آور میزائلوں کو دھوکہ دینے کی صلاحیت رکھتاہے جو فضا میں گرم چیز کو تباہ کردیتے ہیں۔یہ دلچسپ ہے کہ زیادہ تر میزائل فضا میں اس لئے اپنے نشانہ پر لگتے ہیں کہ انہیں فضا میں موجود سب سے زیادہ گرم چیز کی تلاش رہتی ہے اور اس وقت طیارہ یا ہیلی کاپٹر ہی فضا میں سب سے گرم شے ہوتا ہے۔لیکن اس ہیلی کاپٹر میں ایسے میزائل نصب کئے جاسکتے ہیں جو گرمی کی تلاش میں سرگرداں حملہ آور میزائلوں تک ہیلی کاپٹر کی گرمی پہنچنے نہیں دیتے۔اس کے کاک پٹ کے شیشہ پر ایسا نظام مینوفیکچر کیا گیا ہے کہ دوران پرواز‘ موسم‘ موجودہ روٹ‘ہیلی کاپٹر کا روٹ‘ روٹ کی ری پروگرامنگ‘خود ہیلی کاپٹر کی ہمہ جہت فنکشننگ‘ نیوی گیشن‘فلائٹ کی مکمل معلومات کا ذخیرہ اور دوسری بہت سی تفصیلات برقی نقشہ کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں۔ایک اور حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر خراب سے خراب موسم اور خراب سے خراب میدان میں دن اور رات کے کسی بھی وقت آسانی کے ساتھ اترسکتا ہے۔یہاں تک کہ اس جگہ پر بھی اتر سکتا ہے جو اترنے کیلئے تیار نہ کی گئی ہو۔مینوفیکچرنگ کمپنی ’کزان‘ کا دعوی ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر ہنگامی صورتحال میں صرف ایک انجن پربھی اتر سکتا ہے۔ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ اتنے مضبوط‘ اچوک اور بہترین سسٹم والا ہیلی کاپٹرتینوں افواج کے سب سے بڑے فوجی افسر کو لے کر کیوں بآسانی ہنگامی صورتحال میں نہیں اترسکا اور کیوں اس کا رابطہ زمینی کنٹرول سسٹم سے منقطع ہوگیا۔  

قرآن اس کا بہت آسان پیرایہ میں جواب دیتا ہے۔این ماتکونوا یدرککم الموت تم کہیں بھی رہوگے موت تم کو آن پکڑے گی۔پھر کہا: ولو کنتم فی بروج مشیدۃ یعنی خواہ تم (کتنے ہی) مضبوط قلعوں میں(محفوظ) ہو۔آپ کو اگر یاد ہو تو کچھ برس قبل دہلی کے چڑیا گھر میں ایک رکشہ چلانے والا شیر کی ماند میں گرگیاتھا۔وقت کافی ملا تھا‘چڑیا گھر کے افسران چاہتے تو اسے بچاسکتے تھے۔لیکن خالق کائنات نے اس کی وہیں موت لکھی تھی۔آدھے گھنٹہ کی چشمک کے بعدشیر نے ایک ہی جھٹکے میں گردن دبوچ کر کام تمام کردیا۔ایک بڑے عہدیدار نے کھانے پر ذکر چھیڑدیا:’کتنی بھیانک موت تھی‘۔میں نے کہا کہ قرآن میں اس کا ذکر ہے۔عہدیدار کو حیرت ہوئی۔میں نے قرآن کی وہ آیت سنائی جس میں پانچ چیزوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے: وماتدری نفس بای ارض تموت اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس (سرزمین) پر مرے گا۔موت کا فرشتہ سب سے بڑے فوجی افسر کو کس اہتمام کے ساتھ اور کتنی حفاظتوں کے ساتھ وہاں لے گیا جہاں اس کی موت لکھی تھی۔اور اس کے بعد حفاظت کا کوئی نظام کام نہ آیا اور ایک ہی جھٹکے میں سب کچھ آگ کے شعلوں میں تبدیل ہوگیا۔بصیرت والوں کیلئے اس حادثہ میں ایک بڑا سبق ہے۔۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر