سال 2016سے مسلم نوجوانوں کے مذہبی رجحان میں کمی آئی:سروے
نئی دہلی(ایجنسی): نوجوان مسلمان اپنے ہندو، سکھ اور عیسائی ساتھیوں سے ’کچھ مختلف‘ دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ وہ واحد کمیونٹی ہے جس میں گزشتہ پانچ سالوں میں مذہبی سرگرمیوں میں نمایاں کمی درج ہوئی ہے، یہ انکشاف اسی مہینہ جاری ایک سروے میںہوا ہے ۔
انڈین یوتھ انسپائریشنز اینڈ ویژن فار دی فیوچر‘ نام کی رپورٹ ایک سروے پر مبنی ہے۔ جو اس سال جولائی -اگست میں 18 ریاستوں کے 18-34 سال کے درمیان کے، 6,277لوگوںپر کیاگیا تھا۔ یہ اسٹڈی سینٹر فار دی اسٹڈی آ ف ڈیولپنگ سوسائٹیز ( سی ایس ڈی ایس) نے، اپنے تحقیقی پروگرام لوک نیتی کے تحت جرمن تھنک ٹینک کانراڈ ایڈنایئر اسٹفٹنگ ( کے اے ایس) کے تعاون سے کیا۔
سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نماز پڑھنے والے، روزہ رکھنے والے، مساجد میں جانے والے اور مذہبی مواد پڑھنے یا دیکھنے والے مسلمانوں کا تناسب 2016 کے مقابلے کم ہوا تھا، جب آخری سی ایس ڈی ایس- لوک نیتی سروے کیا گیاتھا۔
مسلمان ایک اور لحاظ سے دوسری برادریوں سے الگ کھڑے نظر آئے: مذہب کی وجہ سے دوستوں کے ہاتھوں ان کے ساتھ امتیازی سلوککا تجربہ،حالانکہ دودیگر اقلیتوں، عیسائیوںاورسکھوں نے بھی مسلمانوں کی طرح ہی، بھارت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بارے میں ’ زبردست مایوسی کااحساس‘ کااظہار کیا،لیکن ان میں مذہبی امتیاز کا سامنا کرنے کا تناسب بہت کم تھا۔
لیکن2021 میں، صرف 86 فیصد مسلم نوجوانوں نے کہا کہ وہ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے ہیں، جو کہ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں 11 فیصد کی گراوٹ تھی۔ اس کے مقابلے باقاعدگی طور سے عبادت کرنےوالے نوجوانوں کی تعداد، سکھوں (96فیصد) اورعیسائیوں (93فیصد)میں بڑھی ہے۔ اورہندوؤں (88 فیصد)میں قدرے کمی آئی ہے ۔
اسی طرح عبادت گاہوں پر جانے والے مسلم نوجوانوں کے تناسب میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔
2016 میں 85 فیصد مسلمان جواب دہندگان نے بتایا کہ وہ اپنی عبادت گاہوں پر جاتے تھے(الگ الگ تعدد کے ساتھ)، لیکن 2021 میں صرف 79 فیصد نے کہا کہ انہوں نے ایسا کیاہے۔ اگرچہ یہ کمی دیگر مذاہب میں بھی دیکھی گئی، لیکن یہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ6 فیصد تھی، اس کے بعد ہندوؤں میں 4 فیصد (92 سے 88 فیصد)، عیسائیوں میں 2 فیصد (91 سے 89 فیصد) اور سکھوں میں ایک فیصد (97 سے 96 فیصد) تھی۔
مذہبی شرکت داری پر خود کاخیال
مجموعی طور پر 19 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ان کی مذہبی شرکت داری میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ 17 فیصد نے کہا کہ اس میں کمی آئی ہے۔ 57 فیصد نے کہا کہ یہ اتنی ہی ہے اور 7 فیصد نے جواب نہیں دیا۔ یہاں بھی دیگر مذاہب کے مقابلے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے کہا کہ ان کی مذہبی شرکت کے بارے میں ان کا تصور کم ہو گیا ہے۔ جہاں 18 فیصد مسلم نوجوانوں نے کہا کہ ان کی مذہبی شرکت داری میں اضافہ ہوا ہے، 20 فیصد نے محسوس کیا کہ ان کی مذہبی شرکت داری میں کمی آئی ہے۔
عیسائیوں اور سکھوں کے لیے، زیادتی اور کمی دونوں کا احساس کرنےوالے جواب دہندگان کی حصہ داری برابر تھی۔ بالترتیب 25 فیصداور 13 فیصد۔
ہندوؤں نے بتایاکہ ان کی مذہبی حصہ داری کا تصور بڑھ گیا ہے۔ تقریباً 20 فیصد ہندو جواب دہندگان نےبتایاکہ ان کی مذہبی شرکت داری میں اضافہ ہوا ہے ،جبکہ 16 فیصد نے اس میں کمی دیکھی ۔
بھارت میں مذہبی ہم آہنگی پر مایوسی
سی ایس ڈی ایس کی رپورٹ میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کا نوٹس لیتے ہوئے کہا گیا کہ 2020 میں فرقہ وارانہ؍مذہبی فسادات کے 857 معاملے درج کیے گئے، جو کہ 2019 میں تقریباً 438 سے دوگنے تھے۔
رپورٹ میں اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز جرائم اور لنچنگ کے حالیہ واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، اور ہندوستان کے تین مسلم اکثریتی پڑوسیوں سے مذہبی اقلیتوں کے لیے شہریت کے نئے قانون کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں سروے کے جواب دہندگان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اگلے پانچ سالوں میں مذہبی ہم آہنگی بہتر ہو گی یا خراب ہو گی۔
19 فیصد ہندوؤں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی صورت حال مزید خراب ہو جائے گی، جبکہ اقلیتیں زیادہ مایوسی کا شکار تھے۔ 31 فیصد عیسائی اور 33 فیصد مسلمانوں اور سکھوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ مذہبی ہم آہنگی میں کمی آئے گی۔
رپورٹ کے مصنّفین اس بنیاد پر زمینی سطح پر مسلمان نوجوانوں کے خیالات کی گہرائی میں زیادہ گئے کہ اس کمیونٹی نے ’حال کے سالوں میںامتیازی اور تشددکی مار جھیل رہےہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق مذہبی بقائے باہمی کے بارے میں’’مایوسی‘ کا احساس ان صوبوں میں رہنے والے مسلمانوں میں زیادہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی قومی اوسط 14.23 فیصد سے زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر، ان ریاستوں میں آسام، مغربی بنگال، یوپی، بہار، جھارکھنڈ، اور کیرالہ کے —مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں زیادہ مایوسی کا شکار ہے۔
مجموعی طور پر، ان صوبوں میں 35 فیصد مسلمانوں نے کہا کہ انہیں اس کے مزید خراب ہونے کی توقع ہے، جبکہ اوسط سے کم مسلم آبادی والے صوبوں میں یہ شرح 23 فیصد ہے۔
سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جن ریاستوں میں مسلمانوں کی اوسط سے زیادہ آبادی ہے وہاں بھی مذہبی امتیاز کی اطلاع دینے کا امکان زیادہ ہے، شاید اس لیے کہ اکثریت اور اقلیتی برادریوں کے درمیان ’مفاہمت اور بات چیت‘ کے مواقع موجود ہیں۔
مذہبی امتیاز کا تصور
2011 کی مردم شماری کے مطابق، ہندو کل آبادی کا تقریباً 80 فیصد ہیں، اس کے بعد تین سب سے بڑی اقلیتی برادریاں ہیں- مسلمان (14.23 فیصد)، عیسائی (2.3 فیصد) اور سکھ (1.72 فیصد)۔
سروے میں سیمپل کئے گئے اقلیتوں کے مطابق مسلمانوں کو اپنے دوستوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تقریباً 44 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں اپنے دوستوں کی طرف سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا، 13 فیصد نے کہا کہ ایسا اکثر ہوتا ہے، جبکہ 31 فیصد نے کہا کہ یہ کبھی کبھار ہوتا ہے۔ صرف 18 فیصد عیسائی (4 فیصد اکثر، 14 فیصد کبھی کبھار) اور 8 فیصد سکھ (3 فیصد اکثر، 5 فیصد کبھی کبھار) نے اس طرح کے امتیازی سلوک کی بات کی۔جبکہ اوسطاً 70 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں اپنے مذہب کے حوالے سے کبھی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا، مسلمانوں میں یہ شرح صرف 49 فیصد ہے۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی ہم آہنگی کے معاملے کے برعکس، جہاں مختلف مذہبی اقلیتوں کے نوجوانوں کی تقریباً ایک ہی رائے تھی، امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کے معاملے پر، یہ احساس زیادہ تر صرف مسلمانوں میں تھا۔
کیا مسلمان واقعی کم مذہبی ہو رہے ہیں؟
اپنے نتائج پر بحث کرتے ہوئے سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ‘’عقل کے برعکس‘ مسلم نوجوان پہلے کے مقابلے میں کم مذہبی دکھائی دیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘کسی کے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بننے کے بعد مسلمانوں نے زیادہ تعداد میں اپنے عقیدے کی طرف رجوع کیا ہوگا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ کچھ مسلمان جواب دہندگان نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کے بارے میں بات کرنا آسان نہ سمجھا ہو۔
دی پرنٹ نے سروے کے نتائج پر ان کی رائے جاننے کے لیے متعدد اسلامی اسکالرز سے بات کی اور پایا کہ وہ عام طور پر شکوک و شبہات کا شکار تھے۔
اسلامک سینٹر آف انڈیا لکھنؤ کے صدر مولانا خالد فرنگی محلی کے مطابق سروے کے اعداد و شمار زمینی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے۔
’اس طرح کے سروے بہت کم لوگوں پر کیے جاتے ہیں، اور زیادہ تر شہری علاقوں میں،‘ محلی نے کہا۔ وہ پوری آبادی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ مجھے نہیں لگتا کہ مسلم نوجوانوں کی مذہبی شرکت میں کوئی کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس ملک کی کسی بھی مسجد میں جمعہ کے دن جائیں اور وہاں کے لوگوں کو خود دیکھیں۔ آپ دیکھیں گے کہ بہت سے نوجوان نماز پڑھنے آتے ہیں۔
سیاسی اسلام کے اسکالر اورسی ایس ڈی ایس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہلال احمد نے دی پرنٹ کو بتایا کہ یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ لوگ اپنے مذہبی طریقوں کو کس طرح دیکھتے ہیں وہ موضوعی ہے۔
انہوںنے بتایا،’سروے کا ڈیٹا ایک فرد کے ادراک پر مبنی ہوتا ہے… اور مذہبیت بہت وسیع ہے۔ ایک شخص کے لیے ہر جمعہ کی نماز پڑھنا، ایک باعمل مسلمان کے قائم کردہ اصول سے علیحدگی سمجھا جا سکتا ہے۔ جو شخص پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے وہ اپنے آپ کو بغیر پابندی کے نماز پڑھنے والا سمجھ سکتا ہے۔
احمد نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں میں اپنے مذہب کے بارے میں ذاتی ہونے کا رجحان ہے، اور اسی موضوع پر دی پرنٹ کے لیے لکھے گئے ایک مضمون کا حوالہ دیا۔
0 Comments