Latest News

باپو گاندھی ’ ویلن‘ گوڈسے ’ ہیرو‘؟ گاندھی جی کے قتل کو جائز قررا دینے کے لیے گوڈسے کی کتاب پر زہریلی فلم !!!شکیل رشید

باپو گاندھی ’ ویلن‘ گوڈسے ’ ہیرو‘؟ گاندھی جی کے قتل کو جائز قررا دینے کے لیے گوڈسے کی کتاب پر زہریلی فلم !!!
شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 
74 سال پہلے ،آج ہی کی تاریخ کو مہاتماگاندھی ایک ’ ہندوتوادی‘ کے ہاتھوں قتل کیے گئے تھے ۔ 30 جنوری 1948ء کی وہ شام ، معمول کی شاموں کی ہی طرح تھی۔ کچھ دیر قبل ہی دہلی کے برلا ہاؤس میں مہاتماگاندھی کی ، جنہیں بھارت واسی مہاتما کے علاوہ باپو بھی کہتے ہیں ، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ ملاقات اختتام کو پہنچی تھی۔ پوجا کے لیے باپو کو دس منٹ کی تاخیر ہوگئی تھی۔ وہ دائیں جانب منوبین کے کندھے پر اور بائیں جانب ابھا بین کے کندھے پر اپنے ہاتھ رکھے پوجا استھل کی جانب جارہے تھے کہ خاکی لباس میں ایک نوجوان مجمع کو چیرتے ہوئے گاندھی جی کے قریب پہنچا، وہ اپنے قدموں پر دونوں ہاتھوں کو جوڑے ہوئے جھکا، ابھا نے سمجھا کہ شاید وہ باپو کے چرن اسپرش کرنا چاہتا ہے ۔ ابھا نے اسے ایک طرف ڈھکیلنے کی کوشش کی لیکن اس نوجوان نے ابھا کو اس زور سے دھکا مارا کہ وہ لڑکھڑا گئی اور اس کے ہاتھوں سے مالا ، نوٹ بک اور باپو کا تھوک دان ، سب چھوٹ کر زمین پر گڑپڑے۔ ابھا انہیں اٹھانے کے لیے زمین پر جھکی تب ہی ا س کے کانوں میں چار بار گولیاں چلنے کی اور باپو کی زبان سے نکلے ’ ہے رام۔۔۔!‘ کلمے کی آواز آئی ۔ منوبین نے دیکھا کہ ابھا زمین پر بیٹھی ہوئی ہے اور باپو کا سر اس کی گود میں دھرا ہوا ہے ۔۔۔
 گولیاں چلانے والا وہ نوجوان ناتھورام ونائک گوڈسے تھا ۔۔۔ وہی وناٹک گوڈسے جس کے نام کی مالا آج ’ ہندوتوادی‘ جپ رہے ہیں ، اور جس کی تحریر کردہ کتاب ’’میں نے گاندھی کا قتل کیوں کیا؟‘‘ پرWhay I Kiled Gandhi? کے نام سے ایک فلم کی نمائش کی تیاری زوروشور سے جاری ہے ۔ 
یہ گوڈسے کون تھا؟ اس کتاب میں کیا لکھا ہوا ہے ؟ یہ جو فلم گوڈسے کی کتاب پر بنی ہے اس کی نمائش روکنے کی عرضیاں کیوں عدالت ِ عظمیٰ میں پیش کی گئی ہیں ؟ یہ چند اہم سوالات ہیں جن کے جواب جاننا ضروری ہیں ، کیونکہ یہ ’ ہندوتوادی‘ یہ ’ یرقانی ٹولہ‘ گوڈسے کو ’ ہیرو‘ اور گاندھی جی کو ’ویلن‘ بنانے کی جو عجلت کررہا ہے ، اس میں ان سوالوں کے جوابوں سے عدمِ واقفیت کا مطلب ’ یرقانیوں‘ کے پروپگنڈے کے زیراثر آنا اور ان کے جال میں پھنسنا ہوگا ۔ 
بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ گوڈسے کا حقیقی نام رام چندر ونائک گوڈسے تھا ، اور اسکولوں کے رجسٹروںمیں اس کے اسی نام کا اندراج تھا ۔ریاست حیدر آباد میں نظام کے خلاف ستیہ گرہ اور تحریک چلانے کے بعد گوڈسے کو یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں پولس اسے گرفتار نہ کرلے ، لہٰذا اس نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ناتھورام ونائک گوڈسے کے نام سے اپنا ریکارڈ بنوالیا اور آئندہ اسی نام سے مشہور یا بدنام ہوا۔ گوڈسے پر ’ ہندومہاسبھا‘ کے ’ ہندوتوادی‘ لیڈر ونائک دامودر ساورکر کا گہرا اثر تھا ۔ یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ پونے کے ایک چت پاؤن برہمن گھرانے میں جب کئی بچوں کی موت کے بعد گوڈسے کا جنم ہوا تو اس کے والدین نے اس کی پرورش ایک لڑکی کے طور پر کی ۔ گوڈسے کئی سالوں تک لڑکی کی ہی طرح پرورش پاتا رہا ، اس کی ناک تک چھدوادی گئی تھی جس میں وہ ایک نتھ پہنے رہتا تھا ، اس لیے لوگ اسے ’ ناتھورام‘ کہہ کر پکارتے تھے ۔ گوپال گوڈسے کی ولادت کے بعد ناتھورام گوڈسےکو بیٹا سمجھنے کا عمل شروع ہوا ۔ لڑکی کی طرح پرورش پانے کا عمل گوڈسے کے ذہن پر کچھ ایسے گہرے نفسیاتی اثرات مرتب کرگیا جس سے وہ آخر تک اپنا پیچھا نہ چھڑا سکا ۔ تعلیمی میدان میں وہ ناکام رہا ، کام کاج اس کے بس کا نہیں تھا ۔ اس کا بچپنا ایک جوگی کی طرح گزرا ۔ ایک طرح کا سنکی پن تھا۔ گوڈسے نے ابتدا میں بارامتی میں تعلیم حاصل کی، پھر پونے میںاسے ایک انگریزی میڈیم اسکول میں بھیجا گیا مگر وہ پڑھ نہیں سکا ۔ پھر اس نے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں شمولیت اختیار کرلی ۔ یہ 1932ء کا سال تھا۔ آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک گولوالکر اور گوڈسے میں کافی قربت تھی۔ 1940ء میں گوڈسے نے اپنی ایک تنظیم ’ ہندو راشٹردل‘ کا قیام کیا اور 1946ء میں وہ ’ ہندو مہاسبھا‘ میں شامل ہوگیا ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس نے آر ایس ایس کو چھوڑ ردیا ہے ۔ لیکن بعد کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ گوڈسے ہمیشہ آر ایس ایس سے جڑا رہا ، اور یہ آر ایس ایس سے رشتہ توڑنے کا ’ پروپگنڈا‘ صرف اس لیے تھا کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر کوئی شبہ نے کیا جاسکے اور اس کے ذمے داران سے کوئی تفتیش نہ کرے۔ یوں تو ’ ہندو مہاسبھا‘ کا قیام کانگریسی رہنما مدن موہن مالویہ نے کیا تھا لیکن یہ تنظیم اپنے نظریات اور فکر میں کٹّر ’ہندوتوادی‘ تھی۔ ونائک دامودر ساورکر اس تنظیم کا ’ نظریہ ساز‘ بھی تھا اور گوڈسے کا ’ گرو‘ بھی۔ گاندھی جی کے قتل کی منصوبہ سازی کے ملزمین میں ساورکر کا بھی نام شامل تھا۔ آج بھی کہا جاتا ہیکہ ساورکر ہی نے گوڈسے کو گاندھی جی کے قتل کے لیے آمادہ کیا تھا۔ اس وقت پولس نے جو رپورٹ تیار کی تھی اس میں صاف لفظوں میں ساورکر کو گاندھی جی کے قتل کی سازش کا ’ ماسٹر مائنڈ‘ قرار دیا گیا تھا۔ 
 پولس نے ناتھورام گوڈسے کے علاوہ ساورکر ، نارائن آپٹے ، دگمبربڈگے، شنکر کشتیۂ ، دتاتریہ پرچورے ، وشنوکرکرے ، مدن لال پاہوا اور گوپال گوڈسے (ناتھو رام گوڈسے کا چھوٹا بھائی) کو گرفتار کیا تھا ۔ ان میں سے ناتھورام گوڈسے اور نارائن آپٹے کو پھانسی ہوئی ۔ اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو ، وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور گورنر جنرل چکرورتی راج گوپالا چاری نے رحم کی درخواستیں مسترد کردی تھیں ۔ جی ہاں ! وہی سردار ولبھ بھائی پٹیل جنہیں آج ’یرقانی‘ ’ سنگھی‘ اور ’ہندوتوادی‘ اور ’ بھاجپائی‘ اپنا ’ قائد‘ بتاتے نہیں تھکتے ، نہ گاندھی جی کے قاتلوں کو معافی دینے کو تیار ہوئے تھے ، اور نہ ہی انہوں نے آر ایس ایس پر پابندی عائد کرنے میں کوئی پس وپیش کی تھی۔ 
سوال یہ ہے کہ ناتھورام گوڈسے نے گاندھی جی کا قتل کیوں کیا تھا؟ اس سوال کا تفصیلی جواب اس کتاب میں مل جاتا ہے جس کا انگریزی نام اس مضمون میں اوپر گزرچکا ہے ۔ مذکورہ کتاب دراصل گوڈسے کا اپنے دفاع میں دیا گیا عدالتی بیان ہے ۔ اس بیان پر اور اس کی اشاعت پر حکومت ِ ہند نے پابندی عائد کردی تھی ، لیکن 1967ء میں جب پابندی ہٹائی گئی تو یہ کتاب چھپ کر سامنے آئی اور اب اس پر ایک فلم تیار ہے ۔ گوڈسے نے گاندھی جی کےقتل کی جو وجوہ بتائی ہیں انہیں مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے : ’’ گوڈسے کا یہ ماننا تھا کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان میں ’’اقلیتوں‘‘ یعنی ہندوؤں اور سکھوں کا جو قتل عام ہوا تھا اسے روکا جاسکتا تھا اگر گاندھی اور اس وقت کی حکومت اس کی سعی کرتی ۔ گوڈسے کا بیان ہے کہ قتلِ عام کی مذمت کرنے یا اس پر احتجاج کرنے کی بجائے گاندھی جی برت رکھ رہے تھے ۔ گوڈسے کی سوچ تھی کہ گاندھی جی کا قتل کرکے وہ خود کو برباد کرلے گا اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں گے ، لیکن اس نے یہ بھی سوچا کہ ایسا ہوا تب بھی گاندھی جی کا منظر سے ہٹ جانا ملک کے لیے بہتر ہوگا ، عملی ہوگا اور ملک بدلہ لینے کے قابل ہوگا اور اس کی مسلح افواج طاقت ور ہوں گی ۔ پاکستان کو جواب دینا ممکن ہوگا ۔ گوڈسے کا کہنا تھا کہ گاندھی جی نے برت رکھ کر ، حکومت پردباؤ بنایااور وہ فنڈ پاکستان کو سونپنے پر مجبور کیا جو کشمیر کی جنگ کے نتیجے میں منجمد کر دیا گیا تھا۔ گوڈسے کا یہ ماننا تھا کہ گاندھی اپنی باتیں زوردے کر کانگریس سے منوالیتے ہیں اس لیے ان کا منظر سے ہٹنا ملک کی سیاست کے لیے اچھا ہی ہوگا ۔۔۔ ہندوستان اپنے مفادات کی حفاظت کرسکے گا ۔ گوڈسے کا کہنا تھا کہ وہ گاندھی جی کے نظریہ رواداری اور مذہبی بھائی چارے کو صحیح نہیں سمجھتا تھا۔ عدم تشدد کا نظریہ ہی تھا جس نے پاکستان کو ہندوستان سے علیحدہ کردیا تھا اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں برباد کردی تھیں ، تشدد کا جواب تشدد ہی سے دینادرست ہے ۔ گوڈسے نواکھالی میں مسلم کش فسادات رکوانے کے لیے گاندھی جی کے برت سے بھی ناراض تھا۔‘‘
تو یہ سب باتیں جو عدالت میں اس نے اپنے بیان میں کہی تھیں کتابی شکل میں سامنے آگئی ہیں۔ حالانکہ اپنے بیان سے گوڈسے کے تضادات بھی سامنے آئے ہیں ۔اس کا یہ کہنا کہ اس نے گاندھی جی کا قتل سیاست کے نقطۂ نظر سے کیا تھا کسی طرح درست نہیں ٹھہرتا ، کیونکہ اس کے بیان سے اس کا تعصب ، جانبداری اور اقلیت بالخصوص مسلم اقلیت کے تئیں اس کی نفرت واضح طور پر جھلکتی ہے ۔ اب اس کتاب پر ایک فلم آرہی ہے جو یقیناً نفرت کی لہر کو ہوا دے گی اور گوڈسے کو ایک ’’ہیرو‘‘ اور گاندھی جی کو ایک ’’ویلن‘‘ بناکر پیش کرے گی ۔ یہ فلم آج ہی یعنی 30جنوری ، گاندھی جی کے قتل کی تاریخ سے ، او ٹی ٹی پلیٹ فارم ’’لائم لائٹ‘‘ پر پیش کی جانی ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس کے خلاف عرضی پڑی ہوئی ہے ، کانگریس نے اور سنے اسوسی ایشن نے اس فلم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے ،دیکھتے ہیں کیا فیصلہ ہوتا ہے ! عرضی میں اس جانب عدالت کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ فلم کے ٹریلر میں جو دومنٹ بیس سیکنڈ کا ہے، مہاتماگاندھی کو ملک کے بٹوارے اور پاکستان میں ہندوؤں پر مظالم کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے ، اور اس طرح گاندھی جی کے قتل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ واضح ر ہے کہ یہ فلم راست او ٹی ٹی پر پیش کی جارہی ہے ، اسے سنسر بورڈ کے سامنے پیش نہیں کیاگیا ہے ۔ الیکشن کے اس دور میں یہ ساورکر اور گوڈسے کے پریمیوں کا بھارت واسیوں کے ذہنوں میں نفرت بھرکر راج سنگھاسن پر پھر سے قبضہ کرنے کی ایک اور کوشش ہے ۔ ویسے بھی ان کے لیے گاندھی جی سے گوڈسے کہیں زیادہ محبوب ہے ۔ ایک دلچسپ بات مزید: فلم میں گوڈسے کا کردار نیشنلشٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) کے رکن پارلیمنٹ امول کولہے نے نبھایا ہے!!

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر