ہاری لڑائی لڑ رہی بی جے پی: حسام صدیقی
لکھنؤ: اترپردیش اسمبلی کے الیکشن زوروں پر ہیں۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے لیڈر جس انداز میں بیان بازی کررہے ہیں اس سے صاف ہے کہ بی جے پی ہاری لڑائی لڑ رہی ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہوں، بی جے پی کے ترجمان ہوں یا پارٹی کے نیشنل صدر جے پی نڈا سمیت دوسرے مرکزی لیڈران، سب کے سب دس پندرہ سال پرانی باتیں اٹھا کر سماج وادی پارٹی کو گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ’ابّا جان‘ ، ’اسّی بنام بیس‘ جیسے بے تکے مدعے اٹھانے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ نے اب سماج وادی پارٹی کو طمنچہ وادی تک کہہ دیا ہے۔ لکھنؤ سے دہلی تک بی جے پی لیڈران کا سارا زور کیرانہ سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار ناہید حسن کو مافیا اور ہسٹری شیٹر بتانے پر لگا ہوا ہے۔ناہید موجودہ ممبر اسمبلی ہیں۔ انہیں پھنسانے کے لئے خود وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ان پر گینگسٹر ایکٹ لگوا دیا تھا۔ حقیقت میں سب سے زیادہ گینگسٹر اور ہسٹری شیٹر آج بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں میں شامل ہیں۔ خود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے نائب کیشو پرساد موریہ درجنوں معاملات میں ملزم ہیں۔ ہم انہیں ملزم اس لئے لکھ رہے ہیں کہ ان لوگوں کو کسی عدالت نے بری نہیں کیا ہے۔ سرکار بننے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے خلاف چل رہے مقدمے واپس لے لئے تھے۔ مطلب خود ہی ملزم خود ہی منصف۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے صرف اپنے خلاف ہی چل رہے مقدمے واپس نہیں لئے تھے۔ انہوں نے کیشو پرساد موریہ اور ۲۰۱۳ کے مظفر نگر دنگوں کے ملزمان سنگیت سوم اور سریش رانا سمیت اپنی پارٹی کے سو سے زیادہ کریمنل ممبران اسمبلی کے خلاف چل رہے مقدمے واپس لے لئے تھے۔ اگر یوگی آدتیہ ناتھ نے بے ایمانی کرکے یہ مقدمے و اپس نہ لئے ہوتے تو ان کے سمیت بی جے پی کے درجنوں ایسے ممبران ا سمبلی اورلیڈر ہیں جنہیں عدالت سے سزا مل جاتی۔ جن لوگوں نے اپنی سرکار کا غیراخلاقی استعمال کرکے اپنے خلاف چل رہے مقدمے واپس لے لئے ہوں، عدالت کا سامنا نہ کیا ہو، انہیں دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا کون سا حق حاصل ہے۔ اگر یوگی ایماندار ہیں تو انہیں اپنے خلاف چل رہے مقدمے عدالت میں جانے دینا چاہئے تھا۔ عدالت سے اگر بری ہو جاتے تب انہیں دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا حق ضرور مل جاتا۔ مقدمے عدالت میں جانے نہیں دیئے تو عوام کی نظر میں وہ آج بھی ملزم اور کریمنل ہیں۔ اس کے باوجود بڑی بے شرمی سے سماج وادی پارٹی کے مسلم امیدواروں ناہید حسن، اسلم چودھری، حاجی یونس، رفیق انصاری، دلنواز خان اور مدن بھیّا کے بہانے عام ہندوؤں کو بھڑکا کر پولرائز کرنے کا کام کررہے ہیں۔
شاملی سے ہندوؤں کے بھاگنے کی بات سالوں پہلے وہاں کے لوک سبھا ممبر حکم سنگھ نے اٹھائی تھی۔ خوب ہنگامہ مچا لوگوں نے ان سے بھاگنے والوں کی فہرست مانگی جو وہ نہیں دے پائے۔ انہو ںنے ایک پبلک میٹنگ کرکے تقریباً پچاس ہزار سے زیادہ کی بھیڑ کے سامنے معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ان سے غلطی ہوگئی۔ شاملی سے ہندوؤں کے بھاگنے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ پانچ سال تک یوگی کی سرکار رہی اگر کسی نے وہاں سے ہندوؤں کو بھگایا تھا تو پانچ سالوں تک یوگی خاموش کیوں بیٹھے رہے۔ انہیں ایسے لوگوں کےخلاف سخت کاروائی کرنی چاہئیے تھی۔ اگر کاروائی نہیں کی تو اس کا مطلب تو صاف ہے کہ یوگی اب جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سراسر جھوٹ ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور دہلی میں بیٹھے ان کی پارٹی کے لیڈران روز کیرانہ کا رونا روتے رہتے ہیں۔ جبکہ کیرانہ سے بی جے پی امیدوار مرگانکا سنگھ نے ٹی وی چینلوں سے بات کرتے ہوئے صاف کہا ہے کہ کیرانہ میں پوری طرح سے فرقہ وارانہ تال میل قائم ہے۔وہاں ذات برادری یا فرقوں کے نام پر کوئی کشیدگی نہیںہے۔ ہم وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سرکاروںکے ذریعہ کئے گئے ترقیاتی کاموں کے سہارے انتخابی میدان میں ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے اس سے پہلے الیکشن کو پوری طرح ہندو مسلم میں تقسیم کرنے کی غرض سے بیان دیا تھا کہ اترپردیش اسمبلی کا الیکشن اسّی فیصدبنام بیس فیصد ہے۔ اسّی فیصد سے ان کا مطلب ہندوؤں سے اور بیس مسلمانوں سے تھا۔ ان کا یہ بیان آنے کے بعد انہی کی کیبنٹ کے وزیر سوامی پرساد موریہ، دارا سنگھ چوہان اور دھرم سنگھ سینی نے سماج وادی پارٹی میں شامل ہو کر یوگی کے اسّی فیصد کے دعوے کی ہوا پوری طرح نکال دی۔ کیونکہ اوم پرکاش راج بھر اور ہندوؤں کی کئی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں پہلے ہی سماج وادی پارٹی کے ساتھ آچکی تھیں۔ یوگی اور بی جے پی کی ہوا خراب ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مشرق سے مغرب میں سہارن پور اور مظفر نگر تک برہمن، بیک ورڈ، گوجر اور جاٹ ہر طرح کے ہندوؤں سے متعلق ممبران اسمبلی نے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کو ٹھکرا دیا ہے۔ گوجرلیڈر اوتار سنگھ بھڈانا بی جے پی چھوڑ کر راشٹریہ لوک دل میں چلے گئے۔ سینی سماج کے مضبوط لیڈر دھرم سنگھ سینی، بدایوں کی بلسی اسمبلی سیٹ سے ممبر اسمبلی بالا پرساد اوستھی، مشرق میں راجبھر، کرمی، نشاد، موریہ، کانچھی جیسی برادریوں کے اصل لیڈر کہے جانے والے سارے لوگ سماج وادی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔برہمنوں میں بی جے پی سے ناراضگی پہلے سے ہے تو پھر یوگی آدتیہ ناتھ کس اسّی فیصد لوگوں کی بات کررہے ہیں۔
اترپردیش میں جو حالات نظر آرہے ہیں اور مشرق سے مغرب تک یو ٹیوب چینل والے گاؤں گاؤں میں لوگوں سے بات کرتے گھوم رہے ہیں۔ انہیں سن کر اور دیکھ کر تو صاف لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اسمبلی کا الیکشن ہار چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پارٹی کی سیٹیں سو تک بھی آتی ہیں یا نہیں؟ خود یوگی آدتیہ ناتھ ایودھیا سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ نے انہیں ایودھیا کے بجائے گورکھپور پہونچادیا۔ گورکھپور
میں وہ خود بھی الیکشن ہارسکتے ہیں۔
لیڈ اسٹوری
جدید مرکز، لکھنؤ
مؤرخہ ۲۳ تا ۲۹ جنوری، ۲۰۲۲
0 Comments