Latest News

کالج میں کوئی ڈریس کوڈ نافذ نہیں ،لیکن حجاب پہننا بے ضابطگی: کرناٹک سرکار

کالج میں کوئی ڈریس کوڈ نافذ نہیں ،لیکن حجاب پہننا بے ضابطگی: کرناٹک سرکار
بنگلور :(ایجنسی)
کرناٹک کے وزیر مملکت برائے تعلیم بی سی ناگیش کا کہنا ہے کہ حجاب پہننا بے ضابطگی ہے۔حالانکہ وزیر ناگیش نے اعتراف کیا کہ ریاستی حکومت نے ’یونیفارم (ڈریس) کوڈ طے نہیں کیا ہے‘ لیکن احتجاج کرنے والی طالبات سے پھر بھی اصول پر عمل کرنےکی پیروی کی۔ وزیرکےبیان کےبعد اڈپی ضلع کے ایک سرکاری کالج کی مسلم طالبات نے کالج کے گیٹ پر تختیوں کے ساتھ احتجاج کیا ۔ وہ گزشتہ تین ہفتے سے حجاب کی حمایت میں تحریک کررہی ہیں۔

طالبات کا کہنا تھا کہ انہیں حجاب پہننے سے روکنا ان کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے وہ مرد لیکچررز، پروفیسرز کے سامنے بیٹھنے پر عدم اطمینان محسوس کرتی ہیں۔ طالبات میں سے ایک عالیہ نے میڈیا کو بتایا، ’ہم حجاب پہن کر کالج آئے تھے، لیکن ہمیں ایک بار پھر کلاس میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔‘
یہ تازہ احتجاج کالج حکام اور ضلع حکام کی طرف سے طلباء کو الٹی میٹم دینے کے ایک دن بعد ہوا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ڈریس کوڈ طے ہے۔ یا تو تعلیم حاصل کریں، یا گھر کوجائیں۔ طالبہ مسکان زینب نے کہا، ’ہمیں حجاب پہننے پر 20 دن کے لیے روک دیا گیا ہے۔ ہمیں انصاف چاہیے۔‘ ایک اور طالبہ ریشم نے کہا-’آئین ہمیں حجاب پہننے کا حق دیتا ہے، کالج کیوں منع کر رہا ہے؟
ریاستی وزیر تعلیم بی سی ناگیش نےاین ڈی ٹی وی سےکہاکہ یہ عمل ’بے ضابطگی‘ ہے اور یہ کہ اسکول اور کالج ’مذہب پر عمل کرنے کی جگہ نہیں ہیں۔‘ وزیر کے اس بیان کے بعد احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ ناگیش نے ’کچھ لوگوں پر‘ بھی الزام لگایا۔ انہوں نے پی ایف آئی سے وابستہ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کا ذکرکیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ 2023 کے اسمبلی انتخابات سے قبل اس معاملے کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔ وزیر نے یہ بھی جاننے کی مانگ کی کہ مسلم طالبات اب اپنے آئینی حقوق کا استعمال کیوں کرنا چاہتی ہیں؟
اس الزام پر طلباء نے آج سی ایف آئی سے کسی بھی طرح کے تعلق سے انکار کیا۔ عالیہ نے این ڈی ٹی وی سے بات چیت میں کہاکہ ’ ہم کیمپس فرنٹ آف انڈیا سے متاثر نہیں ہیں۔ ہم ان کا حصہ نہیںہیں۔ چونکہ ہمیں پازیٹیو جوابیا حمایت نہیں ملی ، اس لئے ہم نے سی ایف آئی سے رابطہ کیا۔‘
قبل ازیں وزیر ناگیش نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ڈریس کوڈ سے متعلق قوانین 1985 سے نافذ ہیں اور یہ احتجاج صرف 15-20 دن پہلے ہوا تھا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس مخصوص کالج میں داخلہ لینے والی 100 سے زیادہ مسلم طالبات کو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ … اسکول دھرم پر عمل کرنے کی جگہ نہیں ہے۔‘‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا محکمہ تعلیم کو لڑکیوں کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے حق کی خلاف ورزی کرنی چاہئے، اور اگر حجاب یا اسکارف پہننے سے کسی رہنما اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے؟تو ناگیش نے کانگریس کی طرف سازش کااشارہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’جب کانگریس حکومت میں تھی… انہوں نےضابطہ پر عمل کیا ، لیکن اب انہیںایک مسئلہ کیا؟ وہ اب آئینی حقوق کی بات کررہے ہیں۔؟بےضابطگی ایک حق نہیں ہوسکتا۔‘‘
احتجاج کرنے والی طالبات نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ان کے والدین نے کالج کے حکام سے بارہا درخواست کی کہ انہیں حجاب پہننے کی اجازت دی جائے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ طالبہ صفا نے کہا، ’’ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے… اسی لیے ہم حجاب پہن رکھا ہے، یہ گورنمنٹ کالج ہے… ایک گرلز کالج ہے (لیکن) ہمارے تمام لیکچررز مرد ہیں۔

انہوں نے کہاکہ سرکاری کالج میں مقامی زبان بولنے کی اجازت ہے لیکن اردو بولنا اور سلام کرنا ممنوع ہے۔
عالیہ نے انکشاف کیا کہ اس کے سینئرز کو کلاس کے دوران حجاب پہننے کی اجازت تھی، لیکن ایسا کرنے پر انہیں ’ذہنی طور پر اذیت‘ دی گئی تھی۔’کالج میں مذہبی امتیاز ہے۔ ہم سلام نہیں کہہ سکتے… سرکاری کالج ہونے کے باوجود اردو میں بات نہیں کر سکتے۔ دوسرے طلباء کو مقامی زبان میں بات کرنے کی اجازت ہے…لیکچرر ہم سے تیلگو میں بات کرتے ہیں لیکن ہمیں اردو میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘ عالیہ نے یہ بھی کہا کہ کالج کے شرائط و ضوابط میں حجاب پہننے کا کوئی حوالہ نہیں دیتے۔ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں جیسے ہم جرم کر رہے ہیں؟ ہم صرف اسکارف ہی تو مانگ رہے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر