Latest News

اسّی فیصد ہندوؤں کے دعویدار یوگی پر یوپی کے پچھڑوں کی زور دارچوٹ۔

اسّی فیصد ہندوؤں کے دعویدار یوگی پر یوپی کے پچھڑوں کی زور دارچوٹ۔
حسام صدیقی
 لکھنؤ: اترپردیش اسمبلی کے الیکشن کو اسّی فیصد ہندو بنام بیس فیصد مسلمان بنانے والے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کو ریاست کے ساٹھ فیصد سے زیادہ پچھڑوں نے جو زور دار سیاسی تھپڑ مارا اس کی گونج دہلی تک پہونچ گئی۔ بارہ جنوری کو دہلی میں امیدواروں کے نام طئے کرنے کے لئے جب بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران میٹنگ کررہے تھے اسی دوران لکھنؤ میں بی جے پی خیمے میں بھگدڑ مچی تھی پارٹی چھوڑنے والے تینوں سینئر وزیر سوامی پرساد موریہ، دارا سنگھ چوہان اور دھرم سنگھ سینی بیک ورڈ طبقہ کے سینئر اور قد آور لیڈرہیں ان کے ساتھ پارٹی سے استعفیٰ دینے والے تقریباً ایک درجن ممبران اسمبلی سبھی بیک ورڈ طبقات کے ہیں۔ خبر ہے کہ دہلی میں چل رہی میٹنگ کے دوران جب یہ خبریں پہونچیں تو امت شاہ نے آدتیہ ناتھ سے کہا کہ کیوں نہ پچھڑوں کو روکنے کے لئے آپ کی جگہ پر کیشو پرساد موریہ کو وزیراعلیٰ بنادیا جائے۔ اس پر دونوں میں جم کر نوجھونک ہوگئی۔ ابھی کئی دیگر وزراء اور ممبران اسمبلی کے بی جے پی چھوڑ کر سماج وادی پارٹی میں شامل ہونے کی خبریں ہیں۔
اترپردیش اسمبلی الیکشن کے نتائج کی تقریباً تمام خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں بی جے پی کے خلاف آنے سے پریشان وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے آخری داؤ بھی چل دیا اور الیکشن کو پوری طرح ہندو مسلمان بنانے کی غرض سے یہ اعلان کردیا کہ یہ الیکشن اسّی فیصد بنام بیس فیصد ہے۔ ان کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ اترپردیش کے اسّی فیصد ہندو ان کے ساتھ ہیں اور بیس فیصد مسلمان ہی ان کے خلاف ہیں۔ ان کے بیان کی اس منشاء کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے آگے کہا کہ وہ بیس فیصد ووٹر تو کبھی بی جے پی کے ساتھ نہیں رہے، ہمیشہ بی جے پی کی مخالفت کی ہے اس لئے اب بھی کریں گے ہمیں ان کی پروا نہیں ہے کیونکہ اسّی فیصد لوگ(ہندو) بی جے پی کے ساتھ ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے کوئی پہلی بار ایسا زہرنہیں اگلا ہے۔ اپنی پانچ سال کی حکومت کے دوران انہوں نے کئی بار مسلمانوں کے خلاف نہ صرف قابل اعتراض تقاریر کی ہیں بلکہ ریاست کے مسلمانوں کے خلاف جتنی زیادتیاں ممکن تھیں سب ان کی سرکار نے کیں اور قدم قدم پر مسلمانوں کی توہین کی گئی۔ یہ کام انہوں نے صرف اور صرف عام ہندوؤں کو بی جے پی کے حق میں پولرائز کرنے کے لئے کئے ہیں۔ وہ شائد ہندوؤں کو بالکل بے وقوف سمجھتے ہیں کہ ان کی اس قسم کی باتوں میں پھنس کر سارا ہندو ووٹ ان کی طرف ہوجائے گا۔ جب سے انہو ںنے سرکاری پیسے پر ریلیاں شروع کیں تقریباً ہر ریلی میں انہو ں نے اسی قسم کی زہریلی باتیں کی ہیں۔
یوگی کن اسّی فیصد لوگوں کی بات کررہے ہیں۔ ریاست کا ایک بھی یادو بی جے پی کے ساتھ نہیں، آدھے سے زیادہ کرمی بی جے پی کے خلاف ہیں، موریہ سماج ان کے خلاف اپنے سماج کی نبض ٹٹولنے کے بعد ہی یوگی کے کیبنٹ وزیر سوامی پرساد موریہ وزارت اور بی جے پی چھوڑ کر سماج وادی ہوگئے۔ پہلے  ہی دن ان کے ساتھ بی جے پی چھوڑنے والے دیگر چار ممبران اسمبلی میں ایک دلت اور تین بیک ورڈ ہیں۔ دلت پہلے سے ہی بی جے پی کے ساتھ نہیں ہیں، راجبھر برادری کے سبھی بڑے لیڈر سماج وادی پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں یا اس کے ساتھ سمجھوتہ کرچکے ہیں۔ کسانی قوانین سے ناراض مغربی اترپردیش کے تمام کسان بی جے پی کے خلاف لام بند ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بی جے پی لیڈران اور وزیر کسانوں  کے  گاؤں میں بھی نہیں گھس پارہے ہیں، ریاست کا برہمن طبقہ بھی بی جے پی  سے ناراض ہے۔ پھر بھی یوگی آدتیہ ناتھ دن میں خواب دیکھتے ہوئے ریاست کے اسّی فیصد ہندوؤں کو بی جے پی  میں بتا رہے ہیں۔ اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ شائد شکست کے خوف سے وہ اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔
 وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی میں ان کے کچھ ساتھیوں کی بے چینی اور مایوسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنے لوگوں سے کہہ کر اترپردیش میں کچھ مقامات پر دنگا فساد بھی کراسکتے ہیں۔ ویسے بھی ان کی اپنی پرائیویٹ آرمی ہندو یوا واہنی ہمیشہ سے سماج میں کشیدگی پھیلانے کا کام ہی کرتی رہی ہے۔ اپنی پانچ سال کی سرکار کے دوران یوگی نے یوا واہنی کو بہت مضبوط کیا ہے۔ یوا واہنی میں شامل غنڈوں کو بڑے پیمانے پر اسلحوں کے لائسنس دیئے جانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ یوا واہنی کو مضبوط کئے جانے کا واحد مقصد یہی ہے کہ جب ضرورت پڑے ان کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف دنگا فساد کرایا جاسکے۔
یوگی کی بوکھلاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پانچ سالوں میں ان کی سرکار عوام کے مفاد کے کوئی کام نہیں کرپائی یا کئے نہیں اور جھوٹ پر جھوٹ بولتے گئے۔ انہوں نے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر کروڑ وں سرکاری روپئے خرچ کرکے طرح طرح کے اشتہارات شائع کروائے اور جگہ جگہ ہورڈنگ لگوائی، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ہر گھر میں پینے کے پانی کا کنیکشن پہونچ چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کی بات تو دور راجدھانی لکھنؤ کے ارد گرد گاؤں تک میں پینے کے پانی کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح کا ایک بڑا جھوٹ یہ بولا گیا کہ ان کی سرکار نے ساڑھے چار لاکھ لوگوں کو نوکری دے دی، سا ڑھے چار لاکھ لوگوں کو نوکری دینے کی ہورڈنگ پوری ریاست میں لگا دی گئی اس کے بعد یوگی دعویٰ کرنے لگے کہ ایک کروڑ لوگوں کو نوکری دی گئی۔ چند دنوں میں ہی یہ تعداد پانچ کروڑ تک پہونچ گئی۔ مطلب خالص جھوٹ۔ اس جھوٹ کے باوجود آدتیہ ناتھ خواب دیکھ رہے ہیں کہ ریاست کے اسّی فیصد ہندو ان کے اور بی جے پی کے ساتھ ہیں۔

لیڈ اسٹوری
جدید مرکز، لکھنؤ
مؤرخہ ۱۶ تا ۲۲ جنوری، ۲۰۲۲

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر