Latest News

حجاب معاملہ: فیصلہ ہونے تک مذہبی لباس پر پابندی، کرناٹک ہائی کورٹ کاتعلیمی اداروں کو کھولنے کا حکم، امن وامان کے قیام پر زور، اگلی سماعت پیر کو۔

حجاب معاملہ: فیصلہ ہونے تک مذہبی لباس پر پابندی، کرناٹک ہائی کورٹ کاتعلیمی اداروں کو کھولنے کا حکم، امن وامان کے قیام پر زور، اگلی سماعت پیر کو۔
بنگلور: (مدثر احمد) کرناٹک ہائی کورٹ میں جمعرات کی دوپہر ڈھائی بجے سے حجاب کے معاملے کو لے کر طویل بحث ہوئی جس میں ہائی کورٹ کے تین رکنی ججوں کی بینچ نے سماعت شروع کی۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی ، جسٹس قاضی زیب النساء محی الدین ، جسٹس کرشنا دیکشت نے اس معاملے کی شنوائی کا آغاز کیا ۔ دعویداروں کی جانب سے ایڈوکیٹ سنجے ہیگڈے نے اڈپی کے طلباء کی وکالت کی جبکہ کندا پور کے طلباء کیلئے دیودت کامت نے وکالت کی۔ 
آج ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد کرناٹک ہائی کورٹ کےچیف جسٹس ریتوراج اوستھی نے یہ فیصلہ سنایاکہ ہم اس معاملے کیلئے فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے،البتہ اس معاملے کو مکمل ہو نے تک یہ حکم ضرور دینگے کہ جب تک معاملے کی سنوائی نہ ہوگی ،اُس وقت تک کوئی مذہبی لباس پہننے کیلئے دبائونہ ڈالے اور فوری طورپر تعلیمی اداروں کاآغازکیاجائے،معاملے کی سنوائی ختم ہونےتک مذہبی لباس پر توجہ نہیں دی جاسکتی،ساتھ ہی ساتھ چیف جسٹس ریتوراج اوستھی نے کہاکہ ہم اس معاملے کی سنوائی جلد ازجلد کرنا چاہتے ہیں اورساتھ میں یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ امن وامان اور یکجہتی برقرار رکھاجائے۔اس پر اڈوکیٹ نے کہاکہ یہ درست نہیں ہے،عبوری راحت دی جائے آپ یہاں اس طرح سے کہہ رہے ہیں کہ یا تو پانی کاانتخاب کریں یا پھر کھانے کا،جبکہ دونوں ہی چیزیں ضروری ہیں اور کچھ دنوں کیلئے ہم اپنے عقیدے کو ختم نہیں کرسکتے۔اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم تمام کے مذہبی عقائد کو محفوظ کرینگے،اسی لئے ہم آپ کی عرضی سُن رہے ہیں اور اگلی سنوائی14فروری بروز پیرکی دوپہر30.2 بجے کی جائیگی۔عدالت کو اڈکیٹ سنجے نے بتایا کہ حجاب کوئی قانونی معاملہ نہیں ہے نہ ہی معمولی بات ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے مذہب کا حصہ ہے اور اس پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے ۔ اس پر جو احکامات قرآن میں موجود ہیں اس پر اگر تبصر ہ کیا جائے تو اس کے لئے بہت وقت لگے گا ، لیکن بھارت کے کیرلا ہائی کورٹ ، مدراس ہائی کورٹ کے فیصلے حجاب کو بنیادی حق مانتے ہیں ۔ جبکہ کرناٹک حکومت نے جو احکامات جاری کئے ہیں وہ کہیں بھی اس بات کو ثابت نہیں کرتے کہ طلباء کو حجاب پہننے کے اختیارات دئے گئے ہیں ۔ 

مزید اڈوکیٹ کامت نے بتایا کہ پی یوکالج کی طالبات اپنے یونیفارم کے مطابق ہی حجاب پہنتی ہیں اور اسکا رنگ مختلف نہیں ہے ۔یہ انکے مذہب کا فرض اور تہذیب ہے ۔کرناٹکا ایجوکیشن ایکٹ میں حجاب کو لے کر کوئی مخصوص قانو ن نہیں ہے ، کرناٹکا کے قانون میں کوئی یونیفارم کے لئے شرائط نہیں ہیں اور نہ کوئی جرمانہ ہے اور کالج سطح پر کوئی جرمانہ ہے بھی تو وہ نقد جرمانہ ہے ۔ اس دوران اڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یونیفارم کے سلسلے میں کرناٹکا حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں اداروں کو اختیارات دئے گئے ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ طلباء تعلیمی اداروں کو آئیں لیکن طلباء کا ایک گروہ حجاب پہن کر آئے اس کیلئے موقع نہیں دینگے کیونکہ دوسرا گروہ زعفرانی شال لپیٹ کر آئیگا ۔ اڈوکیٹ کامت نے بتایا کہ یہ یونیفارم کا مسئلہ نہیں بلکہ مذہبی عقیدے کا مسئلہ ہے جو کہ مسلما ن خواتین کیلئے بے حد ضروری ہے ۔ کالج انتظامیہ کو ڈریس کوڈ کے اختیارات دیکر ریاستی حکومت آگ کے ساتھ کھیلنے کا کام کررہی ہے اور تعلیمی ادارے اسی بات کو بنیاد بناکر آرٹیکل 25 کے حقوق صلب کرینگے ۔ اڈوکیٹ کامت نے قرآن شریف کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ قرآن میں پردہ وحجاب کو فرض قرار دیاہے،اسی طرح سے مدراس ہائی کورٹ نے اجمل خان کے کیس میں بھی یہ فیصلہ سُنایاہے کہ حجاب اسلامی تعلیمات کا جز ہے،حالانکہ حجاب کے مختلف طریقوں پر اسلامک اسکالرس کی الگ الگ رائے ہے ،مگر سر کو ڈھانپنا ضروری ہے،اسی طرح سے کندھوں اور سینے کو چھپانابھی فرض ہے۔اڈوکیٹ کامت نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ سیکولر بنیادوں کو بحال رکھیں اور مذہبی عقائد و سرگرمیوں کو انجام دینے کیلئے ساتھ دیں۔

اسی دوران اڈوکیٹ ہیگڈے نے عدالت کو بتایاکہ جس طرح سے موٹر وہیکل رولس میں سکھ سماج کے لوگوں کوہیلمٹ پہننے سے رعایت دی گئی ہے،اسی طرح سے سکھ خواتین کو اپنے ساتھ چاقو رکھنےا ور دیگر مذاہب میں گھوگھنٹ ڈالنے کیلئے موقع دیاگیاہے،اسی طرح سے مسلم طلباء کو حجاب پہننے کا موقع دیاجائے۔تمام دلیلوں کو سننے کے بعد عدالت نےہم اس معاملے کیلئے فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے،البتہ اس معاملے کو مکمل ہو نے تک یہ حکم ضرور دینگے کہ جب تک معاملے کی سنوائی نہ ہوگی ،اُس وقت تک کوئی مذہبی لباس پہننے کیلئے دبائونہ ڈالے اور فوری طورپر تعلیمی اداروں کاآغازکیاجائے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر