Latest News

عبدالرحمن سیف عثمانی کی دو کتابوں کا ممتاز شخصیات کے ہاتھوں اجراء، عبدالرحمن سیف کی کتابیں اُردو زبان کی بقا کے طور پر اہمیت کی حامل ہیں۔

عبدالرحمن سیف عثمانی کی دو کتابوں کا ممتاز شخصیات کے ہاتھوں اجراء، عبدالرحمن سیف کی کتابیں اُردو زبان کی بقا کے طور پر اہمیت کی حامل ہیں۔
دیوبند: (سمیر چودھری) ہند نرسنگ ہوم دیوبند کی جانب سے گزشتہ شب شیخ الہند ہال میں دیوبند کے نوجوان ادیب و شاعر عبدالرحمن سیف عثمانی کی دو کتابوں"چاہتوں کا شہر" اور "فی الحال" کا رسمِ اجراء اُردو ادب کی ممتاز شخصیات کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ 
پروگرام کی صدارت رابطہ عالم اسلامی کے رکن مولانا قاری ابولحسن اعظمی نے کی اور نظامت کے فرائض سید وجاہت شاہ نے ادا کیے۔ دہلی سے تشریف لائے ڈاکٹر تابش مہدی نے عبدالرحمن سیف عثمانی کی کتابوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ عبدالرحمن کی کتاب چاہتوں کا شہر پڑھنے کے بعد ان کے قلم کی روانی اور انداز نگارش سے دل شاداب ہو جاتا ہے اور کتاب کے نام سے انکی شخصیت اور انکے مزاج کا بھی پتہ چلتا ہے، کسی بھی کتاب کا نام بہت اہمیت رکھتا ہے، کتاب کے نام ہی سے مصنف کے افکار و خیالات کا اظہار ہوتا ہے، بلا شبہ عبدالرحمن کا یہ سفرنامہ انکے محبت بھرے دل کا مظہر ہے اور انکی دوسری کتاب جو شعری مجموعہ ہے اس میں انکی شاعرانہ صلاحیتوں کا عکس نمایاں ہے، عبدالرحمن کی شاعری میں صلاحیت بھی ہے اور صالحیت بھی یہ دونوں خوبیاں اِن کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کر دیتی ہیں۔ 
منگلور سے آئے اتراکھنڈ کے سابق پلاننگ منسٹر پروفیسر تنویر چشتی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا آج کل نوجوان طبقہ نثر کے مقابلے نظم کی طرف زیادہ مائل دکھائی دیتا ہے لیکن عبدالرحمن سیف عثمانی نظم سے زیادہ نثر میں خود کو مضبوطی کے ساتھ ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ نوجوان اُردو کی اِن دونوں اصناف میں اپنے فن کا جوہر دکھا رہا ہے، عبدالرحمن سیف کی نثر میں بلا کی روانی اور سلاست ہے، پڑھنے والا ایک بار انکی تحریر پڑھنا شروع کردے تو پوری کیے بغیر نہیں چھوڑتا اور یہی خوبی کسی بھی لکھنے والے کو دوام اور مقام عطا کرتی ہے۔ 
نامور ادیب مولانا ندیم الواجدی نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا : عبدالرحمن سیف کا یہ دوسرا سفرنامہ ہے اس سے پہلے انکی کتاب سرحد کے پار پڑوسی ملک کے سفر کی روداد پر مشتمل تھی، یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عبدالرحمن جب کسی بھی منظر یا مقام کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس کو اس خوبصورتی سے تحریر کرتے ہیں کہ پڑھنے والا خود کو اسی سفر میں اسی مقام پر محسوس کرنے لگتا ہے۔ انکا حافظہ کمال ہے عبدالرحمن سیف جس چیز پر بھی نظر ڈالتے ہیں اسکے اندر تک اُتر جاتے ہیں اور اسکی گہرائی کو اسلوب نگارش میں اس طرح سمو دیتے ہیں کہ پڑھنے والے کو معلومات بھی حاصل ہوتی ہے اور مطالعہ کا کیف بھی۔
نوائے قلم کے بانی اور دارالعلوم وقف کے استاد مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے اپنی بات اِن الفاظ میں رکھی کہ سفر ناموں کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اب یہ فن اُردو ادب کا ایک حصہ بن گیا ہے لیکن دور حاضر میں لکھنے والے تو بہت ہیں مگر اچھا لکھنے والوں کا فقدان ہے جسے بھی پڑھِیے بس آورد ہی آورد نظر آتی ہے زبان کا حسن اور ادبی لطافت لیے ہوئے تحریریں اس زمانے میں نہ کے برابر ہیں، ایسے دور میں عبدالرحمن سیف کی تحریریں صحرا میں کسی چشمہ کی مانند نظر آتی ہیں، عبدالرحمن سیف کی کتابیں زبان و بیان کی چاشنی سے مزین ہیں، انکے یہاں زبان کا حسن بھی ہے اور ادبی لطافت بھی، عبدالرحمن سیف کی تحریریں پڑھنے والے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہیں، میری دعا ہے کہ وہ اسی طرح مزید سے مزید بہتر کی طرف لکھتے رہیں۔
جامعہ طیبیہ دیوبند کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر انور سعید نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے عبدالرحمن سیف کی دونوں کتابیں دیکھیں، انکی شاعری بھی پڑهی اور سفرنامہ بھی، خوشی ہوئی اتنی کم عمر میں وہ اتنا بہترین لکھ رہے ہیں، یہ انکی پانچویں تصنیف ہے اور اس میں بھی انکا وہی رنگ وہی انداز ہے جو پڑھنے والے کو معلومات کے ساتھ ساتھ زبان کی حلاوت بھی عطا کرتا ہے اور اُردو کا سرور بھی۔ 
دارالعلوم اشرفیہ کے بانی و مہتمم مولانا سالم اشرف قاسمی نے کہا کہ میں نے عبدالرحمن سیف کی کتابیں پڑھیں اور پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ صلاحیت ان میں خاندانی ہے، دیوبند کے معروف عثمانی خاندان کے عظیم افراد سے تحریر و ادب کا فن انھیں ورثے میں ملا ہے اور خوشی اس بات کی ہے کہ وافر مقدار میں ملا ہے، انکی کتاب چاہتوں کا شہر پڑهی اور مسلسل پڑھتا ہی چلا گیا دل چاہ رہا تھا کہ پوری کتاب ایک ہی نشست میں ختم کر لی جائے۔ عبدالرحمن سیف کی تحریر میں وہی رنگ نظر آتا ہے جو اُنکے دادا مولانا عامر عثمانی کے انداز نگارش میں تھا۔ میں اُن کے والد عبداللہ راہی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ انکی یہ کتابیں قبول عام حاصل کریں۔
پروگرام کی صدارت کر رہے رابطہ عالم اسلامی کے رکن مولانا قاری ابولحسن اعظمی نے اپنی تقریر میں کہا کہ عبدالرحمن جس خاندان کے فرد ہے اس میں ہمیشہ ہی سے با صلاحیت افراد پیدا ہوتے رہے ہیں اور یہی خوبی عبدالرحمن سیف میں بھی آئی ہے وہ علمی مزاج رکھتے ہیں اور اچھی تحریر لکھنے پر قادر ہیں، عبدالرحمن سیف عثمانی جس موضوع پر بھی لکھتے ہیں بڑی دیانت اور متانت کے ساتھ لکھتے ہیں انکی تحریر میں سچائی ہوتی ہے اور یہی بات پڑھنے والے کے دلوں پر اثر کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے عبدالرحمن سیف عثمانی کی تحریر پڑھنے کے بعد اِن کو مزید پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہو جاتا ہے ۔ پروگرام کی نظامت کر رہے وجاہت شاہ نے کہا کہ آج کل اُردو کو چھوڑ کر نوجوان نسل اپنی تہذیب سے دور ہوتی جارہی ہے ایسے ماحول میں عبدالرحمن سیف کی کتابیں اُردو زبان کی بقا کے طور پر بھی اہمیت کی حامل ہیں اور زبان کے اثاثے کے لیے بھی ان کا وجود خوش کن ہے۔ 
عبدالرحمن سیف نے اپنی بات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ حیدرآباد واقعی ایسا شہر ہے جسے دیکھ کر اپنائیت کا احساس ہوتا ہے وہاں کے لوگ وہاں کا ماحول سبھی کچھ محبت اور چاہت کے رنگ میں رنگا ہوا ہے ۔ محفل کے آخر میں پروگرام کے الداعی عبداللہ راہی نے آنے والے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اجراء کی اس محفل میں شہر کی معزز شخصیات نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر اختر سعید، قدرالزما ں کیرانوی، صدرالزماں کیرانوی، عبداللہ عثمانی، کلیم اقبال، اختر عادل، محمد رفیع صدیقی، حکیم محمد سہیل، عدیل تابش، عاصم پیر زادہ، عبدالباسط، حافظ عثمان، اسعد الواجدی، شاغل عثمانی، فرحان الحق ، دانش صدیقی، ڈاکٹر معراج الدّین، ذکی ماہر، سلمان دلکش، ذکی انجم صدیقی، حافظ انیس الرحمن، زہیر احمد زہیر، محمد ذہیب صدیقی، جنید صدیقی، وصیف صدیقی اور اطہر زہدی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

DT Network 

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر