Latest News

بلڈوزر وں سے نفرت کی سیاست۔ شکیل رشید

بلڈوزر وں سے نفرت کی سیاست۔ 
شکیل رشید 
(ایڈیٹر ممبئی اردونیوز) 
 برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن بھی بلڈوزر پر بیٹھ گیے۔
بلڈوزر پر بیٹھے ہوئے بورس جانسن کے چہرے سے مسرت پھوٹی پڑ رہی تھی ، یوں لگ رہا تھا کہ وہ بلڈوزر لے کر جہانگیر پوری پہنچ جائیں گے ، اور دہلی میونسپل کارپوریشن نے جو کام ادھورا چھوڑا تھا ، وہ پورا کر دیں گے ۔ موقع گجرات میں برطانوی کمپنی جے سی بی کے ایک پلانٹ کے کھلنے کا تھا ۔ برطانوی وزیراعظم پلانٹ کا افتتاح کرنے پہنچے تھے ۔ کوئی اور موقع ہوتا تو جے سی بی بلڈوزر سے ان کی ’ چاہت ‘ نظر انداز کر دی جاتی ، لیکن یہ جے سی بی بلڈوزر کچھ پہلے ہی جہانگیرپوری کے مظلوموں کی بستیوں پر چڑھے تھے ، لہٰذا بلڈوزر پر بورس جانسن کی سواری کی تصویر ، ان کے ذریعے ایک انتہائی شرمناک ظلم کی حمایت کی علامت مانی گئی ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ بلڈوزر کی سواری بورس جانسن کے ذریعے جہانگیر پوری کے ظلم کی حمایت ہی تھی ۔ ویسے ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ برطانوی وزیراعظم ، ایسے مظالم کی حمایت کے لیے ’ مشہور ‘ ہیں ۔ ایسے ہی بلڈوزر غزہ میں بھی چلتے ہیں ، اور ان کی زبان سلی رہتی ہے ۔ بلڈوزر پر جانسن کےبیٹھنے کے عمل کی جگہ جگہ مذمت کی گئی۔ حقوقِ انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انڈیا نے ٹوئٹ کیا کہ ’’ کل شمال مغربی دہلی کے جہانگیر پوری میں مسلمانوں کی دکانوں کو مسمار کرنے کے لیے دہلی میونسپل کارپوریشن کے جے سی بی بلڈوزر کے استعمال کے پس منظر میں ، برطانیہ کے وزیر اعظم کا گجرات میں جے سی بی فیکٹری کا افتتاح نہ صرف لاعلمی ہے بلکہ اس واقعہ پر ان کی خاموشی بڑی پُرشورہے ۔‘‘یہ وہی جانسن ہیں جنہوں نے کبھی باحجاب خواتین کو ’ لیٹر باکس ‘ اور ’ بینک رابر ‘ ( بینک چور ) سے تشبیہ دی تھی ۔ ان پر ’ اسلامو فوبیا ‘ کا الزام لگتا رہا ہے ۔ یہ بھی الزام ہے کہ ان کے بعض بیانات سے برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے ۔ جب بلڈوزر پر بیٹھے ہوئے ، بورس جانسن کی تصویر نظر سے گذری تو یہ سوال ازخود ذہن میں گونج اٹھا کہ کیا کسی ملک کا وزیراعظم ایسابھی ہو سکتا ہے !؟جواب سامنے ہی ہے ، اور اثبات میں ہے ۔ لیکن یہ میں برطانیہ کے وزیراعظم کو کیوں کوس رہا ہوں ، اس کے لیے ہمارے اپنے وزراعظم ، ہمارے پردھان سیوک نریندر مودی بھی تو ہیں ! کیا جہانگیرپوری میں جو کچھ ہوا اور اب بھی ہورہا ہے ، مودی اس سے بےخبر ہیں ؟ہم جانتے ہیں کہ وہ بہت پہلے مسلمانوں کی جان کے حوالے سے کتے کے پلّے کی مثال دے چکے ہیں ۔ سچ یہی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں عام لوگوں کی جان ، مال ، ان کی عزت و آبرو کی کوئی پروا نہیں ہے ، ان کی نظر میں بس اپنی ہی جان اور اپنا ہی مال قیمتی ہے ۔ ممکن ہے کہ ان کی نظر میں ، اُن کی جان اور اُن کے مال بھی قیمتی ہوں ، جنہیں یہ اپنا ’ ووٹ بینک ‘ کہتے ہیں اور مانتے ہیں ، لیکن مسلمانوں کی جانیں اور ان کےمال ان کی نظر میں کوئی معنیٰ نہیں رکھتے ۔ اور بلڈوزر تو اُن ہی پر چلے ہیں ۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب جےسی بی چل رہے تھے تو بہت سارےلوگ خوش ہو رہے تھے ، ہنس رہے تھے ! ان میں سنگھی تو تھے ہی ، میڈیا کے لوگ بھی تھے ، دانشور بھی تھے اور عام لوگ بھی تھے ۔ یہ کیسے لوگ ہیں ! ننھےبچوں نے ، اپنی کھلی آنکھوں سے ، اپنے گھر اور اپنی دوکانیں منہدم ہوتے ہوئے دیکھی ہیں ، خواتین نے اپنی آنکھوں سے اپنے آشیانوں کو اجڑتے ہوئے دیکھا ہے ، لوگوں کے خواب ٹوٹے ہیں ، وجود بکھرے ہیں ، لیکن لوگ ہنستے رہے ہیں ! بےبسوں کی بےبسی پر ، لاچاری پر اور کمزوری پر قہقہے لگا تےرہے ہیں ! یہ کون سی اور کیسی مخلوق ہے؟ گودی میڈیا ، خیر بے شرم تو ہے ہی ، لیکن جہانگیرپوری کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اس نےبے شرمی اور انسانیت کی ساری حدیں توڑ دی تھیں ۔ ٹی وی چینلوں کے اینکروں کے لیے یہ ’ جشن ‘ کا دن تھا ، یہ بلڈوزروں پر چڑھ کر رپورٹنگ کر رہے تھے ، یہ چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ اب کون سا ڈھانچہ اور کون سی دوکان منہدم کی جارہی ہے ، اور بلڈوزر ڈرائیور اپنے کام سے کیسےلطف اٹھا رہے ہیں ۔ ٹی وی چینلوں کی فوج کی فوج کھڑی ، بلڈوزروں کو چڑھائی کرتے ہوئے دکھا رہی تھی ، ایک ایک لمحے کی تصاویر ٹی وی کے پردے پر آ رہی تھیں ۔ یہ سارا عمل منصوبہ بند تھا ۔ جہانگیرپوری فساد کے چار روز بعد ، بلڈوزر اسی طرح لائے گیے ، جیسے کھرگون میں اُن مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں کو مسمار کرنے کے لیے لائے گیے تھے ، جن پر ’ فسادی ‘ ہونے کا الزام لگاتھا ۔ اس سے قبل آدتیہ ناتھ یوگی کے راج میں یہی ہوا تھا ۔ ٹی وی پر یہ ’ شو ‘ اس طرح سے پیش کیا جا رہاتھا کہ لوگ یہ جان جائیں کہ ’ فسادی مسلمانوں ‘ کو ان کے کیے کی سزا دی جارہی ہے ۔ اور مسلمانوں نے کیا کیا تھا ؟ اپنا دفاع ۔ گویا کہ اب دفاع اس ملک میں مسلمانوں کے لیے ’جرم ‘ ٹھہرا ہے ، دوسرے بھلے ہی جارحیت کریں ۔ اگر یہاں بات ’ ٹائمز ناؤ‘ کی خاتون صحافی نویکا کمار کی نہیں کی جائے گی تو ’ بے حسوں ‘ اور ’ بے شرموں ‘ کی کہانی مکمل نہیں ہوگی ۔ نویکا کمار نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ، اپنی دانست میں ، مذاق کیا کہ ’’بلڈوزر کی مانگ میں ڈرامائی اضافہ ۔ کیا ہم مینوفیکچرنگ کے لیے ملکی استعداد بڑھا رہے ہیں یا ہمیں درآمدات پر انحصار کرنا پڑے گا؟ #صرف پوچھ رہی ہوں ۔‘‘ اس ’مذاق‘ کے ساتھ ہنسنے اور قہقہہ لگانے والی چار ایمو جی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ ’ مذاق ‘ اُن افرادکی بےبسی کا ہے ، جن کے گھر منہدم کیے گئے ہیں ۔ نویکا کمار کے ٹوئٹ پر ردعمل شدید آئے ہیں ، ایک ردعمل اوی ڈانڈیا کا ہے ، جنہوں نے نویکا کمار کو ’بچ ‘ یعنی ’ کُتیا ‘قرار دیا ہے ۔ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ مظلوموں کے آنسو ضائع نہیں جاتے ۔ لیکن کیا نویکا کمار جیسے ’ پالتو ‘ صحافیوں کے کانوں پر اس طرح کے ردعمل سے کوئی جوں رینگے گی؟ شاید نہ رینگے ، لیکن ایسے ردعمل ضروری بھی ہیں ۔ ضروری اس لیے کہ اُنہیں یہ پتہ چلتا رہے کہ ابھی ان پر تنقید کرنے والے باقی ہیں ۔
جہانگیرپوری بلڈوزر کارروائی کے دوران ، یوں تو بہت سارے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے ، جو دل توڑنے والے تھے ۔ وہ بچہ جو اپنی ماں کے ساتھ اپنے باپ کی سافٹ ڈرنک کی دوکان کے ملبے سے بکھرے ہوئے سامان کو چن رہا ہے ، یا وہ منظر جس میں ایک خاتون اپنے چمن کو اجڑنے سے بچانے کے لیے میونسپل افسران کے آگے گڑ گڑ ا رہی ہے ۔ لیکن ایک منظر اس سارے ’ شو ‘ کا سب سے سے دل خراش ہے ، مسجد کے گیٹ کو بلڈوزر سے گرانے کا منظر ۔ یہ منظر اس لیے دل خراش نہیں ہے کہ یہ ایک مخصوص فرقے کی عبادت گاہ کے گرانے کا منظر ہے ، بلکہ اس لیے دل خراش ہے کہ مسجد سے کچھ ہی دور ایک مندر ہے ، جو اسی قدر باہر ہے جس قدر کہ مسجد ، مگر اسے نہیں گرایا گیا ہے ، اس کے سامنے پولیس کا سخت پہرہ ہے ۔ گویا یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ’ ہم آپ کی مسجد کو منہدم کر دیں گے اور اپنے مندر کو ، بھلے وہ غیر قانونی ہو ، محفوظ رکھیں گے ، آپ کو جو کرنا ہے کر لیں ۔‘ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان اُس مندر کو منہدم دیکھنا چاہتے تھے ، نہیں ، لیکن وہ یہ چاہتے تھے کہ جس طرح ایک مندر کے تقدس کا خیال رکھا گیا ہے اسی طرح ایک مسجد کے تقدس کا خیال بھی رکھا جائے یا تقدس کا خیال رکھا جاتا ۔ لیکن اُن سے یہ امید شاید خوش فہمی ہی تھی جن کا بابری مسجد کی شہادت میں ہاتھ ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے’ اسٹیٹس کو ‘ یعنی حالت کو ’ جوں کا توں ‘ برقرار رکھنے کا حکم دے دیا تھا ، لیکن اُس حکم کو بھی بلڈوزر کے نیچے روند دیا گیا ۔ صبح کے کوئی گیارہ بجے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ، جہانگرپوری کے باسیوں نے کچھ سکون کی سانس لی ، بلڈوزر پیچھے ہٹنے لگے ، لیکن دوپہر کو ایک بلڈوزر پھر مسجد کے پاس پہنچا اور کوئی پندرہ منٹ تک مسجد کے گیٹ اور اطراف کی دوکانوں کو ، سارے میڈیا کے سامنے منہدم کرتا رہا ۔ اسے اگر سپریم کورٹ کی توہین نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے گا ؟ لیکن یہ توہین تو اب معمول ہے ۔ کہاں سے میونسپل افسران میں یہ جرات آئی ؟ کیوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ سپریم کورٹ نے ’ اسٹیٹس کو ‘ کا حکم دے دیا ہے میونسپل کا عملہ مسجد کے گیٹ کو منہدم کرنے پر اتارو تھا ؟ کیا اب یہ سمجھ لیا جائے کہ سپریم کورٹ سپریم نہیں رہ گیا ہے ، سیاسی جبر نے اس کے کس بل نکال دیے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب عدلیہ ہی کو دینے ہیں ، اور اپنے عمل سے دینے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے بلڈوزروں کی کارروائی پر بھی اور اپنے حکم کو اَن دیکھا کرنے پر بھی ، کچھ سنجیدگی دکھائی تو ہے ، اب دیکھنا ہے کہ یہ سنجیدگی صرف دکھاوے کی ہے یا حقیقی ہے ۔ 
بات بورس جانسن سے شروع ہوئی تھی جو دور دیش سے آئے تھے اور بےحسی دکھا کر واپس چلے گئے ہیں ۔ رہے مودی اور امیت شاہ ، تو وہ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ بےبسوں پر لوگ ہنسنا بند کر دیں کہ اسی پر ان کی سیاسی دوکان چل رہی ہے ۔ یقین مانیں وہ اس ہنسی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کریں گے ۔ بلکہ کامل یقین ہے کہ وہ بھی ہنس رہے ہوں گے ، اپنے منصوبے کی کامیابی پر ۔ جہانگیر پوری کا ’ سیاہ کارنامہ ‘ کیا ان کی مرضی کے خلاف انجام دیا جا سکتا تھا ؟ کوئی دیکھے نہ دیکھے ، جن کی آنکھیں کُھلی ہوئی ہیں ، انہیں اُن بلڈوزروں پر مودی اور شاہ کےسائے صاف نظر آ رہے تھے ۔ ان دنوں ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف جو ایک زہریلا ماحول بنا ہوا ہے ، جو ایک نفرت کی آندھی چل رہی ہے ، اس کے پسِ پشت جسے بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کا ہاتھ نظر نہیں آ رہا ہے ، وہ آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھا ہی ہے ۔ یہ کھرگون اور گجرات کے کھمبات سے لے کر جہانگیرپوری تک ، سارا ’ شو ‘ نفرت کو عام کرنے کے لیے ہے ، جی ! بلڈوزروں سے اب نفرت کی سیاست شروع کی گئی ہے ۔ اس کی شروعات یوں تو بہت پہلے ہوگئی تھی لیکن اس میں تیزی ۲۰۱۴ء سے آئی ہے ۔ گئو رکشھا کے نام پر ماب لنچنگ ، گھرواپسی ، لو جہاد ، یوگا ، وندے ماترم ، گیتا کا پاٹھ ، سوریہ نمسکار ، تین طلاق ، حجاب ، حلال گوشت ،کتنے معاملے اٹھے ، اٹھائے گیے اور اٹھائے جا رہے ہیں ۔ مقصد نفرت پھیلانا ہے ۔ اور نفرت پھیلانے میں یہ کامیاب ہیں ۔ اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے ، میں خود پوچھتا ہوں کہ یہ عام لوگوں کے دلوں میں اتنی نفرت کہاں سے بھر گئی ہے؟ اس کا جواب بہت صاف ہے ، یہ نفرت بھری نہیں ہے بھری گئی ہے ۔ کبھی کبھی کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ، مثلاً یہ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ گودی میڈیا نے جو سنگ دلی دکھائی ، جس حیوانی خوشی کا اظہار کیا ، وہ اس لے کہ یہ اپنے ’ آقا‘ کے ’پالتو ‘ ہیں ، چند کوڑیوں میں بک جانے والے ۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ عام لوگوں کو اپنے ’ آقا ‘ یا ’آقاؤں‘ کے رنگ میں رنگنے سے کیا حاصل ہو گیا ؟ ایک جھوٹ ہے جو ان کے سامنے پروسا جا رہا ہے کہ یہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں ، یہ اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں تاکہ تمہیں غلام بنا لیں ، یہ پاکستانی ہیں ، یہ تمہاری عورتوں کو اغوا کر لیں گے ، یہ تمہارے دھرم کو ختم کر دیں گے ۔ دھرم سنسد ہو رہے ہیں ، یہ کہہ کر مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے لوگوں کو اکسایا جارہا ہے کہ آئندہ مسلمان وزیراعظم بنے گا اور تم سب کو مسلمان بنا دے گا ، یہ سب جھوٹ ہی تو ہے ۔ لیکن یہ جھوٹ اس طرح سے پروسا جا رہا ہے کہ وہ عام لوگ جو مہنگائی کی مار جھیل رہے ہیں ، جن کے لیے زندگی کی گاڑی کھینچنا مشکل ہوتا جارہا ہے ، وہ ہوش و حواس کھو کر ترشول تلواریں لے کر میدان میں اتر آئے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ دو فرقوں میں یہ جو خلیج وسیع ہوتی اور نفرت بڑھتی جا رہی ہے ، اس سے ملک کا نقصان ہو گا ، ان کا ، جو یہ خلیج وسیع کر رہے ہیں ، کچھ نہیںبگڑے گا ! بس کچھ دیر کے لیے اُن کی طرف انگلیاں ہی تو اٹھیں گی ، انہیں اس کی کیا پروا ۔ ان کی تجوریاں اتنی بھر گئی ہیں کی ملک کی تباہی بھی انہیں برباد نہیں کر سکتی ، برباد صرف اور صرف عام انسان ہو ں گے ، کیا ہندو کیا مسلم ۔ اور یہ سب جانتے ہیں لیکن سمجھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ تو کیا اس دیش کےمقدر میں اب بربادی ہی ہے؟

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر