Latest News

جہانگیرپوری ، بندا کرات ،کانگریس ’ آپ ‘ اور مذہبی قیادت- اتواریہ/ شکیل رشید

جہانگیرپوری ، بندا کرات ،کانگریس ’ آپ ‘ اور مذہبی قیادت
اتواریہ/ شکیل رشید
کمیونسٹ خاتون رہنما بنداکرات کو لال سلام۔
یہ سلام صرف اس لیے نہیں ہے کہ وہ جہانگیرپوری گئیں ، اور اُن بلڈوزروں کے سامنے کھڑی ہوگئیں ، جو بےبسوں کے آشیانوں اور دوکانوں کو منہدم کر رہے تھے ، حالانکہ انہیں صرف اس کے لیے بھی سلام پیش کیا جا سکتا ہے ، یہ سلام اس لیے بھی ہے کہ انہوں نے یہ بتا دیا ہےکہ جبر کے ماحول میں بھی ، ایک آمر کی آمریت کو للکارا جانا ممکن ہے ۔ یہ عام سے حالات نہیں ہیں کہ کوئی بھی سیاسی یا سماجی رہنما ، ایک ایسے آمر کو ، اس کی آمریت پر للکار دے ، جس کا راج چل رہا ہو ۔ پہلے کی حکومتوں میں احتجاج اور مظاہرےکرنا یا کسی عوام مخالف پالیسی کے خلاف آواز بلند کرنا ، دشوار نہیں تھا ، لیکن آج ، یہ عمل جرم ٹھہرا ہے ، قابلِ سزا جرم ۔ بندا کرات یا ان کی سیاسی جماعت تو ، دہلی سے الیکشن بھی نہیں جیتتی ، نہ ہی جہانگیرپوری ان کا انتخابی حلقہ ہے ، یہ تو غریبوں اور مزدوروں اور کچھ کھاتے پیتے لوگوں کی ایک معمولی سی بستی ہے ، اس بستی میں اگر بندا کرات نہ بھی آتیں تو نہ ہی ان کی سیاست متاثر ہوتی اور نہ ہی ان پر کوئی انگلی اٹھتی ۔ لیکن وہ آئیں ، اپنے ساتھیوں کے ساتھ آئیں ، جن میں حنان ملا بھی تھے ، اوربلڈوزروں کے سامنے کھڑی ہو گئیں ، کیونکہ ان کی نظر میں یہ سارا کا سارا عمل ایک ’ ظلم ‘ تھا ، ایک مخصوص فرقے ---مسلمانوں ---کے ساتھ زیادتی تھی ۔ انہیں اپنی اس سوچ پر پورا یقین تھا اور ہے کہ بی جے پی فرقہ پرستی کی سیاست کو فروغ دے کر ملک اور سماج کے تانے بانے کو مسخ کر رہی ہے ، لہٰذا اس کا سامنا کرنا ضروری ہے ۔ اگر ایک خاتون رہنما ، کسی سے ڈرے بغیر ، بلڈوزروں کے سامنے کھڑی ہوسکتی ہے ، تو کیا دہلی کے مرد سیاست داں بلڈوزروں کے سامنے نہیں کھڑے ہو سکتے تھے؟ دہلی میں کانگریس نے برسہابرس حکومت کی ہے ، دہلی کے لوگوں نے ، جن میں جہانگیرپوری کے باشندے بھی شامل ہیں ، کانگریس کو اپنے ووٹ دے کر دہلی کی حکومت کئی بار سونپی ہے ، اور وہ اب دوبارہ دہلی پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ لیکن جب دہلی والوں کو کانگریس کی ضرورت تھی تب کانگریس ان کی طرف پیٹھ کیے کھڑی تھی ! کانگریس نے ایسا نہیں ہے کہ جہانگیرپوری بلڈوزر کارروائی پر زبان نہیں کھولی ، اس کی زبان کھلی ، مگر اس کا کوئی لیڈر جب جہانگیرپوری والوں کو ضرورت تھی ، موقع پر نہیں پہنچا ۔ بعد میں کانگریسی گیے ، لیکن تب تک چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں ۔ کیوں کانگریس سنگھ اور بی جے پی کے ساتھ آرپار کی لڑائی سے کترا رہی ہے ؟ کانگریسی قیادت دیکھتی چلی آ رہی ہے کہ ’ سافٹ ہندوتوا ‘ کی پالیسی اس کے لیے کارآمد نہیں ہے ،’سافٹ ہندوتوا ‘ کبھی بھی بی جے پی کے ’ ہارڈ ہندوتوا ‘ کو نہیں ہرا سکتا ، اگر کانگریس کو پھر سے مقابلے میں آنا ہے تو اسے فرقہ پرستی کے خلاف کھل کر لڑائی لڑنا ہوگی ۔ مسلمانوں کے لیے کھل کر بولنا ہوگا ۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو کانگریس کا احیا ممکن نہیں ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی دہلی میں حکومت ہے ، لیکن اسےجہانگیرپوری کی کوئی فکر نہیں تھی ۔ کیسے اس نے بلڈوزر چلنے دیے ، کیوں نہیں اس کے وہ لیڈر ، جو خوب گرجتے اور برستے ہیں بندا کرات کی طرح بلڈوزروں کے سامنے آئے؟ ان سوالوں کے جواب شاید یہ ہیں کہ کیجریوال مسلمانوں کے صرف ووٹ لینا چاہتے ہیں اُن کے لیے کھڑے ہونا نہیں ۔ کیجریوال شاید یہ مان کر بیٹھے ہیں کہ انہیں ہمیشہ ووٹ ملتے رہیں گے ! افسوس کہ عام آدمی پارٹی سے جو توقعات تھیں وہ ان پر پوری نہیں اتری ہے ۔ مسلم قیادت کا میں کوئی ذکر نہیں کرنا چاہتا ۔ ان میں بندا کرات جیسی نہ جرات ہے نہ ہمت ۔ اسد الدین اویسی جہانگیرپوری گیے ، اور مسلسل بول بھی رہے ہیں ، لیکن یہ صرف خانہ پری ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اس مسٔلے پر زبردست احتجاجی مظاہرہ کریں اور مظلوموں کے لیے کوئی عملی قدم اٹھائیں ۔ رہی مذہبی قیادت تو اس نے تو جیسے یہ طئے کر لیا ہے کہ بس مقدمے لڑتی رہے گی ، اور کوئی اور ترکیب نہیں سوچے گی ۔ مقدمے لڑیں لیکن اللہ کے لیے کچھ ایسا بھی کریں کہ قوم جاگ اٹھے اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر حالات کا بہادری کے ساتھ مقانلہ کرے ۔ اس کے لیے اس مذہبی قیادت کو خود میدان میں آنا ہوگا ۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر