Latest News

دیوبند کی گنگا جمنی تہذیب کو نشانہ بنارہے شرپسند، مشترکہ روایتوں کے پاسدار میلہ کو بنایا جارہاہے مذہبی عبادت۔

دیوبند کی گنگا جمنی تہذیب کو نشانہ بنارہے شرپسند، مشترکہ روایتوں کے پاسدار میلہ کو بنایا جارہاہے مذہبی عبادت۔
دیوبند: (سمیر چودھری)
دیوبند ایک تاریخی بستی ہے جس کی ایک جانب عالمی شہرت یافتہ اسلامی دینی دانشگاہ دارالعلوم دیوبند ہے تو دوسری جانب ہندو مذہب کی عظیم الشان یادگار تری پور ماں بالاسندری دیوی کا مندر ہے ۔دیوبند ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب کا مثالی مرکز رہا ہے۔ہر سال بالاسندری دیوی مندر پر ایک میلہ لگتا ہے جو تقریباً ایک ماہ تک چلتا ہے اس میلہ میں بھی دیوبند کی قدیم گنگا جمنی تہذیب کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے میلہ کے دوران یہاں حلوہ پراٹھا، کراکری، کھلونے، کھیل کود کا سامان، چاٹ کی دکانیں، ٹی اسٹال، سرکس، کالا جادو، ٹورنگ ٹاکیز، جھولے اور تفریح کے دوسرے سامان موجود رہتے ہیں۔ میلہ میں مسلم دوکانداروں کی اکثریت رہتی ہے تقریباً80فیصد دکاندار مسلمان ہوتے ہیں اسی طرح میلہ میں جو ثقافتی پروگرام منعقد ہوتے ہیں ان میں آل انڈیا مشاعرہ اور قوالی پروگرام اس میلہ کے مقبول ترین پروگرام رہے ہیں ان کے علاوہ میوزک،ڈانس،کوی سملین اور دیگر ثقافتی پوگرام بھی منعقد ہوتے ہیں لیکن عوامی طور پر ان کی مقبولیت بہت کم ہے۔اس میلہ کی خاص بات یہ ہے کہ میلہ کے آغاز میں میلہ احاطہ میں موجود مندر ہیں مخصوص پوجا کا پروگرام ہوتا ہے سیکڑوں عقیدت مند مندر آکر پوجا کرتے ہیں،منتیں مانگتے ہیں اور چڑھاوا چڑھاتے ہیں خاص طور پر مندر میںکالے بکروں کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے لیکن چند انتہا پسند گروپوں نے اب اس میلہ کو بھی متنازعہ بنادیا ہے ۔بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے کارکنان اور دیگر ہندو انتہا پسند گروپوں نے ایس ڈی ایم کو ایک میمورنڈم دیکر کہا ہے کہ اس مرتبہ میلہ میں وہی لوگ شرکت کرسکیں گے جو میلہ دیکھنے سے پہلے میلہ گیٹ پر موجود ہندو تنظیموں کے کارکنان سے اپنی پیشانی پر تلک لگوائیں گے۔ یہ ہندو تنظیمیں اس میلہ سے متعلق 1966کا حوالہ دیتی ہے لیکن انہیں معلمو ہونا چاہئے کہ اس میلہ کا تعلق طرح طرح کی تاویلیں پیش کرنے والے اونچی ذات کے ہندؤں سے نہیں ہے۔اس میلہ کا اصل ناصر نام ’’چمار چودس‘‘ ہے جو آہستہ آہستہ لفظ میلہ میں تبدیل ہوگیا اس میلہ کی یہ اصل تاریخ اور اصل نام ہے۔لیکن یہ انتہا پسند تنظیمیں اس طرح کے شوشے چھوڑ کر اس شہر کا ماحول خراب کرنا چاہتی ہیں اور عرصہ سے اس تاریخی بستی کی گنگا جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہیں۔اس شہر اور قرب جوار کی بستیوں کے مسلمان وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل تنظیموں کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو یاد دلایا کہ میلہ ان کے آنے کی جگہ نہیں ہے لیکن ان تنظیموں نے مسلم دکانداروں سے متعلق کچھ نہیں ہا۔میلہ چیئرمین منوج سنگھل کے علم میں بھی یہ سب باتیں ہونگی ایک ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے انہیں اس اعلان کی مخالفت یا موافقت میں لازمی بیان دینا چاہئے۔دیوبند کی معزز شخصیات نے دیوبند میونسپل بورڈ کے چیئرمین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ثقافتی پروگرام کی لسٹ سے آل انڈیا مشاعرہ اور قوالی کے پروگرام کو خارج کریں۔اسی طرح مسلم نتظیموں اور مسلم سماجی شخصیات سے بھی یہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ میلہ میں مسلم دوکانداروں کو دکانیں لگانے سے باز رکھیںاور اپنے اپنے علاقہ کے نواجوانوں،بچوں اور خواتین کو ہندو تنظیموں کے کارکنان ذہنیت اور شر پسند سوچ وفکر سے آگاہ کرکے 14؍اپریل سے شروع ہونے والے میلہ میں نہ جانے کا پابند بنائیں اس کے علاوہ مقامی انتظامیہ کو بھی چاہئے کہ وہ اس طرح کی شر انگیزی کرنے والوں کی سر کوبی کے اقدامات کرکے دیوبند کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو باقی رکھنے میں تعاون کرے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر