Latest News

رام نومی پر تشدد کامجرم کون؟ معصوم مرادآبادی

رام نومی پر تشدد کامجرم کون؟ معصوم مرادآبادی
گذشتہ ہفتہ رام نومی کے موقع پر ملک کی کئی ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی وارداتیں ہوئی ہیں۔اس موقع پرفسطائی عناصر کی اشتعال انگیز کارروائیوں میں کم سے کم دوافراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ قیمتی املاک جلاکر خاکستر کردی گئیں ۔ تادیبی کارروائی ہمیشہ کی طرح مظلوموں کے خلاف ہی کی گئی ہے اور اندھا دھندگرفتاریاں بھی ان ہی کی عمل میں آئی ہیں۔ان ہی کے مکانوں پر بلڈوزر بھی چلے ہیں۔ مدھیہ پردیش سے لے کر جھارکھنڈ اور بنگال سے لے کر گوا تک ہرجگہ ایک ہی کہانی دوہرائی گئی ہے۔ رام نومی کے جلوس کو جان بوجھ کر مسلم علاقوں سے گزارا گیا اور وہاں مسلمانوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔ مسجدوں اور مزاروں کی بے حرمتی کی گئی۔ مسجدوں کے میناروں پر بھگوا جھنڈے پھیرائے گئے۔ بیشتر مقامات پر مسلمانوں نے صبر وتحمل سے کام لیا، لیکن جہاں کہیں انھیں آگ میں جھونکنے کی کوششیں کی گئیں وہاں انھوں نے اپنے دفاع کا قانونی حق بھی استعمال کیا۔جہاں جہاں انھوں نے اپنے تحفظ کے لیے ہاتھ پاؤں چلائے وہاں پولیس اور شرپسند ان پر حملہ آور ہوگئے۔ انھیں سنگین مقدمات میں ماخوذ کرکے گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلاکر ان کے آشیانے اجاڑ دئیے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی کے دن لد گئے ہیں اور ہم جنگل راج میں داخل ہوچکے ہیں۔ بلڈوزر چلانے سے پہلے نہ تو کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ ہی ضابطہ کی کارروائی عمل میں آئی۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ اچانک یا حادثاتی طورپر ہوا ہے بلکہ اس کے لیے پہلے سے تیاری کی گئی تھی اور ان عناصر کو جمع کیا گیا تھا جو آگ لگانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے کھرگون ضلع میں جہاں ایک پوری مسلم آبادی کو تاراج کردیا گیا ہے، جب اشتعال پھیلا تو دہلی بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا وہاں پہلے سے موجود تھے۔ وہی کپل مشرا جنھوں نے دوسال پہلے نارتھ ایسٹ دہلی میں فساد کی آگ بھڑکائی تھی اور جعفرآباد علاقہ میں اعلیٰ پولیس افسران کی موجودگی میں سی اے اے مظاہرین کو سبق سکھانے کی دھمکی دی تھی۔یہی کپل مشرا دہلی سے سینکڑوں کلو میٹر دورآگ لگانے کے لیے کھرگون پہنچ گئے اور ہندوؤں کو مشتعل کرنے کے لیے کھلے عام یہ نعرے لگارہے تھے”نہ موسیٰ نہ برہان، بس جے شری رام“۔ انھوں نے ہندوؤں کو جوش دلاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر تم اب بھی بیدارنہیں ہوئے تو ملک کے ہر خطے میں ’کشمیر فائلز‘بننے کی نوبت آئے گی۔ یعنی ہندوؤں کو کشمیر کی طرح اپنے گھر بار چھوڑنا پڑیں گے۔
یہ بات اکیلے کپل مشرا نے ہی نہیں کہی بلکہ اس سے پہلے یتی نرسنگھا نند نے بھی کہی تھی۔ انھوں نے ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے کی کھلی اپیل کی تھی۔کپل مشرا اور یتی نرسنگھا نند جیسے لوگ مسلسل مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلارہے ہیں اور قانون کو کھلے عام چیلنج کرتے پھررہے ہیں،لیکن کوئی ان کا کچھ بگاڑنے والا نہیں ہے۔آپ کو یاد ہوگا کے دوسال قبل جب دہلی میں فساد بھڑکانے کے لیے کپل مشرا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو ہائی کورٹ کے اس جج کا ہی تبادلہ کردیا گیا جس نے اس معاملے میں کوتاہی برتنے کے لیے پولیس کو کھری کھوٹی سنائی تھی۔ اگر ملک میں قانون کا راج ہوتا تو کپل مشرا اور یتی نرسنگھانند کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے تھا، لیکن قربان جائیے اس نظام کے کہ اب تک کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑسکا ہے۔ یہ لوگ پولیس کے تحفظ میں ہرروز ایک نیا اور زیادہ خطرناک بیان دے رہے ہیں۔ان لوگوں کو قانونی مشنری کا جو تحفظ حاصل ہے، اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ سب کچھ ایک پروگرام کے تحت ہورہا ہے۔
حکومت کا بنیادی کام سبھی شہریوں کے جان ومال کو تحفظ فراہم کرنا اور انھیں انصاف فراہم کرنا ہے لیکن جب خود حکومت ہی کسی معاملے میں پارٹی بن جائے تو آپ کیا کرسکتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ فرقہ وارانہ زبان بول رہے ہیں۔ بلاتفریق مذہب وملت جن لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کا انھوں نے حلف اٹھایا ہے، وہ انھیں ہی نیست ونابود کرنے پر آمادہ ہیں۔ کھرگون میں تشدد برپا ہونے کے بعد پولیس نے ریاستی وزیراعلیٰ کے ایماء پر صرف مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی اور ان لوگوں کو باعزت بری کردیا جنھوں نے سارا فساد برپا کیا تھا۔ یعنی وہ خود ہی عدالت اور منصف بھی بن گئے۔ صوبائی وزیرداخلہ نروتم مشرا نے مسلم بستیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”جس گھر سے پتھر آئے ہیں، اس گھر کو ہی پتھروں کا ڈھیر بنائیں گے۔“ 
 یہ بات بڑے پیمانے پر مشتہر کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے رام نومی کے جلوسوں پر پتھر برسائے، لیکن اس بات پر کسی نے غور کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ آخر یہ نوبت کیوں آئی۔ ظاہر ہے بلا وجہ تو کوئی کسی پر پتھراؤ نہیں کرتا۔ جب مسلم محلوں میں بجرنگ دل کارکنوں نے مسلمانوں کو اشتعال دلایا تو انھوں نے بحالت مجبوری پتھروں سے اپنا دفاع کیا۔ یہی پتھران کو مجرموں کے کٹہروں میں کھڑا کرنے کے لیے کافی سمجھے گئے جبکہ بدترین اشتعال پھیلانے والوں اور پولیس کے تحفظ میں مسلم بستیوں پر پتھراؤ کرنے والوں کو باعزت بری کردیا گیا۔ جن مسلم علاقوں سے دفاعی پتھراؤ کیا گیا تھا انھیں کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا۔ان علاقوں میں بلڈوزر وں نے جو قیامت ڈھائی ہے، اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آج کل بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں بلڈوزر ہی حکومت چلانے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔یوپی کے’بلڈوزربابا‘ کی تو پورے ملک میں دھوم تھی اور اب یہی کام مدھیہ پردیش کے’بلڈوزرماما‘یعنی وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے بھی شروع کردیا ہے۔ ان بلڈوزروں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف ’مسلمان‘ مافیاؤں اور ’فسادیوں‘ کے خلاف ہی چلتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ انھیں ناگپور میں تیار کرایا گیا ہے۔ اترپردیش میں توالیکشن سے پہلے ہی ’مسلم مافیاؤں‘ کے خلاف بلڈوزر کافی تیز رفتاری سے چل رہا تھا اور ان کی کروڑوں اربوں کی عمارتیں خاک کردی گئیں۔ دوبارہ الیکشن جیتنے کے بعد بلڈوزر بابا ان مسلم ممبران اسمبلی پر ٹوٹ پڑے ہیں جو ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود شکست نہیں کھاسکے۔
مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کا کہنا ہے کہ کھرگون میں بلڈوزر صرف ان مکانوں پر چلا ہے جو سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کرکے بنائے گئے تھے۔ان مکینوں پر الزام ہے کہ انھوں نے رام نومی کے جلوس پر پتھراؤ کیا۔ وزیراعلیٰ کے دعوے کی اصلیت اس وقت سامنے آئی جب روزنامہ’انڈین ایکسپریس‘ نے پہلے صفحے پر کھرگون کی بوڑھی خاتون حسینہ فخرو کی ایک تصویر اس رپورٹ کے ساتھ شائع کی کہ کھرگون میں جن مکانوں کو ناجائز قرار دے کر منہدم کیا گیا ہے، ان میں حسینہ فخرو کا وہ مکان بھی شامل ہے جو انھوں نے پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ڈھائی لاکھ روپوں کی مدد سے بنایا تھا۔ حیرت ہے وزیراعلیٰ چوہان نے پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ناجائز زمینوں پر مکانات تعمیر کروادئیے۔اس سے تو خود ان کی اپنی ہی بدعملی ثابت ہوتی ہے۔حسینہ فخرو کے پاس اپنی زمین اور مکان کے تمام جائز کاغذات موجود ہیں، لیکن اب ان کے پاس آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کھرگون کے تباہ حال مسلمانوں کے ایک وفد نے بھوپال میں مدھیہ پردیش کے ڈی جی پی سے ملاقات کرکے بتایا کہ رام نومی پر کھرگون اور سینگھوا علاقہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد انتظامیہ نے مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا ہے جبکہ جلوس میں شامل لوگوں نے مسجدوں کی دیواروں پر بھگوا جھنڈے لگائے اور انتہائی اشتعال انگیز نعرے بازی کی۔کھرگون اور ملک کے دیگر حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ نیا نہیں ہے۔ پچھلے75برسوں سے یہی ہورہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے فسادی اور شرپسند گم نام ہوا کرتے تھے، لیکن اب وہ پولیس کے تحفظ میں کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اگر یوں ہی چلتا رہا تو پھر اس ملک میں کسی کا بھی جان ومال محفوظ نہیں رہے گا۔ جنگل راج میں اگر کوئی خود کو محفوظ سمجھتا ہے تو وہ اس شترمرغ کی مانند ہے جو ریت میں اپنا سرچھپاکر خود کو محفوظ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہوتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر