Latest News

عبادت گاہ ایکٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی اصل روح ہے، یکساں سول کوڈ مسلمان اور دیگر طبقات برداشت نہیں کریں گے۔ جمعیة علماءہند کی مجلس منتظمہ کا دو رزہ اہم اجلاس متعدد اہم تجاویز کی منظوری کے ساتھ اختتام پذیر۔

عبادت گاہ ایکٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی اصل روح ہے، یکساں سول کوڈ مسلمان اور دیگر طبقات برداشت نہیں کریں گے۔ جمعیة علماءہند کی مجلس منتظمہ کا دو رزہ اہم اجلاس متعدد اہم تجاویز کی منظوری کے ساتھ اختتام پذیر۔
اگر کسی کو ہم پسند نہیں تو وہ خود ملک چھوڑ کر چلے جائیں: مولانا محمو مدنی
ہماری لڑائی ہندو بھائیو ں سے نہیں بلکہ حکومت وقت سے ہے:مولانا ارشد مدنی
 اگر حکومت سمجھتی ہے کہ و ہ شعائر اسلام کو مٹا دے گی ، تو یہ اس کی بڑی غلطی ہے:مولانا سفیان قاسمی
مسلمانوں کی خاموشی کو کمزوری سے تعبیر نہ کیا جائے:مولانا بدرالدین اجمل
دیوبند: (سمیرچودھری)
جمعےة علماءہند کی مرکزی مجلس منتظمہ کا دوروزہ اجلا س دیوبند کے عید گا ہ میدان میں آج دارالعلوم کے دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کی دعا پر ختم ہوا۔ اجلاس کی صدارت صدر جمعیة علماءہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کی، جب کہ نظامت کے فرائض مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیة علماءہند نے انجام دےے۔ آخری دن کئی اہم تجاویز منظور ہوئیں ، جن میں خاص طور سے دستوری حقوق سلب کرنے اور یکساں سول کوڈ نافذ کرنے ،گیان واپی مسجد اور متھرا عید گاہ ، اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ہندی زبان اختیار کرنے سے متعلق تجاویز شامل ہیں، نیز ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیاجس میں تمام مسلمانوں کو خوف، مایوسی اور جذباتیت سے دور رہ کر اپنے مستقبل کی تعمیر کے کام میں لگ جانے کا مشورہ دیا گیا ،نیز اجلاس میں یہ واضح موقف کا اعادہ کیا گیا کہ وطن سے محبت اور اس کے لیے قربانی دےنے کو مسلمان ہر وقت تیار ہیں اور وہ اس سلسلے میں کسی سے کم نہیں ہیں۔
 جمعیة علماءہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے آخری صدارتی خطاب میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر اس ملک کی حفاظت کے لیے ہماری جان بھی جائے گی تو ہمارے لیے سعادت کی بات ہو گی۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ملک کے لیے ہماری جو ذمہ داری ہے، ہم اسے ضرور نبھائیں گے ، اگران کوہماری شناخت اور وطن سے ہماری محبت برداشت نہیں ہے تو وہ کہیں اور چلے جائیں ، میں ےہ کہتا ہوں کہ یہ وطن ہمارا ہے ، اور ہماری سوچ اور فکر کی اکثریت ےہاں رہتی ہے ، ہم دوسرے ملک نہیں جائیں گے ، اگر ان کو بھیجنے کا شوق ہے، وہ خود چلے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ جمعیة علماءہند کی یہ قدیم روایت رہی ہے کہ اس نے وطن کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔مولانا محمود مدنی نے مسلمانوں کے آئینی حقوق بالخصوص یوسی سی کے ذریعہ مسلم پرسنل لاءختم کےے جانے کی کوششوں پر کہا کہ چاہے قانون کوئی بھی بن جائے مسلمانوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا ، شرط یہ ہے کہ مسلمان پنے عقائد اور شریعت کا پابند رہے۔ 
اس سے قبل شام میں منعقد ہوئی دوسری نشست میں امیر الہند خامس مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیة علماءہند نے بھی خطاب کیا اور انھوں نے کہا کہ جذباتیت کے مظاہرے اور معاملات پر سڑک پر لانے سے کبھی کسی کا فائدہ نہیں ہو سکتا، جمعیة علماءہند نے بابری مسجد کے سلسلے میں یہی پالیسی اختیار کی تھی ، موجودہ تنازع میں بھی یہی پالیسی مناسب ہے ۔انہوں کہاکہ ہماری لڑائی ہندو بھائیوں سے نہیں بلکہ حکومت سے ہے جس نے مذہب کے نام پر نفرت پھیلاکر ملک کو برباد کردیا۔ آخری نشست میں اپنے خصوصی خطاب میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ جو تجاویز منظور ہوئی ہیں ، ان پر عمل در آمد کرنے کی بھی کوشش کی جائے ، نیز برادران وطن کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے جمعیة کے خدام اپنے اپنے علاقوںمیں طویل مدتی پالیسی کے مطابق کام کریں۔
دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا سفیان قاسمی نے کہا کہ جمعیة علماءہندجیسی بصیرت افروز قیادت موجود ہے ،اس نے جو تجاویز پیش کی ہیں ، پوری ملت کے اتفاق سے اس کے نتائج بہت اچھے سامنے آئیں گے ، انھوں نے کہا کہ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ و ہ شعائر اسلام کو مٹا دے گی ، تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہے، دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا راشد اعظمی نے گیان واپی کے حوالے سے کہا کہ جو طاقت مسجد گراتی ہے اللہ ا سے مٹادیتی ہے ۔جمعیة علماءآسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل نے سرکار کے رویے پر تنقید کی اور کہا کہ مسلمانوں کی خاموشی کو کمزوری سے تعبیر نہ کی جائے۔ نومنتخب نائب صدر جمعیة علماءہند مولانا سلمان بجنوری اور نائب امیر الہند مفتی سید سلمان منصورپوری، مولانا رحمت اللہ میر کشمیری، مولانا ازہر مدنی، قاری شوکت علی ویٹ، مفتی جاوید اقبال کشن گنجی،مولانا عبدالقادر آسام، مولانا ابراہیم کیرالہ، مولانا اسرارالحق جھارکھنڈ، مولانا محمد ناظم پٹنہ،مولانا منصور کاشفی ، مفتی عبدالمومن اگرتلہ ،مولانا سعید احمد منی پور،مولانا امین الحق عبدللہ کانپور،مولاناشبیر مظاہری ، مولانا عبدالواحد کھتری ، مولانا عبدالقادر آسام، پروفیسر نعمان شاہ جہاں پوری ،مفتی جمیل الرحمن پرتاب گڑھی ، مولانا عبدالواحد کھتری وغیرہم نے تجاویز ا ور ان کی تائیدات پیش کیں۔ 
اجلاس کی آخری نشست میں خاص طور سے گیان واپی مسجد اور متھرا عیدگا ہ پر تجویز منظور ہوئی جس میں کہا گیا کہ ایودھیا تنازع کی وجہ سے پہلے ہی سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ امن وامان کو بہت نقصان پہنچاہے۔ اب ان تنازعا ت نے مزید محاذ آرائی اور اکثریتی غلبہ کی منفی سیاست کونئے مواقع فراہم کیے ہیں۔حالاںکہ پرانے تنازعات کو زندہ رکھنے اور تاریخ کی مزعومہ زیادتیوں اور غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کرنے سے ملک کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ (اس لیے) جمعیة علماءہند ارباب اقتدار کو متوجہ کرتی ہے کہ تاریخ کے اختلافات کو زندہ کرنا ؛ملک کے امن و امان کے لےے ہرگز مناسب نہیں ہے۔ خود سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے فیصلے میں عبادت گاہ ایکٹ ۱۹۹۱کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی اصل روح بتایا ہے، جس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتوں اورمذہبی گروہوں کو اس معاملے میں گڑے مرد اکھاڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے، تب ہی جاکر آئین کے ساتھ کےے گئے عہد کی پاسداری ہوگی، ورنہ آئین کے سا تھ بہت بڑی بدعہدی کہلائے گی۔
یکساں سول کوڈ سے متعلق تجویز میں واضح طور سے کہا گیا کہ مسلم پرسنل لاءمیں جو اُمور شامل ہیں، مثلاً :شادی ، طلاق، خلع ،وراثت وغیرہ وہ کسی سوسائٹی ، شخصی یا گروہ کے بنائے ہوئے نہیں ہیں ، نہ وہ تہذیب اور رسم و رواج کے معاملات ہیں ، بلکہ وہ بھی نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کی طرح مذہبی احکام کا حصہ ہیںاور قرآنِ کریم واحادیث شریفہ سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ اِس لیے اِسلام سے ثابت شدہ قوانین، یا احکا م میں کسی بھی طرح کی تبدیلی ،یا اس پر عمل کرنے سے کسی کو روکنا؛ دین اسلام میں صریح مداخلت اور دستور ہند کی دفعہ25 میں دی ہوئی ضمانتوں کے خلاف ہے۔ اِس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ آئین ہند کی بنیادی دفعات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم پرسنل لاءکے تحفظ کے سلسلے میں واضح آرڈینیس جاری کیا جائے۔اگر حکومت یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، تو مسلمانانِ ہند اور دیگر طبقات اِس عظیم ناانصافی کو برداشت نہیں کریں گے، اور اس کے لیے دستوری اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہرطرح کے اقدامات پر مجبور ہوں گے۔اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تجویز میں اس لیے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جلد ازجلد کوئی ایسا قانون وضع کرے جس سے لاءاینڈ آرڈر کی موجودہ بے بسی ختم ہو ، اس قسم کی شرمناک ناگفتہ بہ حرکتوں کا انسداد ہو اور پیشوایان مذاہب کا احترام جو تمام انسانوں کا مشترک فرض ہے ، محفوظ رہے ۔ہندی زبان ا ختیار کرنے سے متعلق تجویز میں مسلمانوں بالخصوص اہل علم حضرات سے اپیل کی گئی کہ اردو کے ساتھ ہندی اور علاقائی زبانوں کا استعمال کریں ، اس سلسلے میں ائمہ حضرات،واعظین و مقررین کو خاص طو رسے متوجہ کیاجاتا ہے کہ وہ جمعہ اور دینی جلسوس کی تقاریر و پیغامات ہندی یا دیگر علاقائی زبانوں میں پیش کریں۔اس کے علاوہ کل دیر شام فلسطین اور عالم اسلام سے متعلق تجویز مولانا عبداللہ معروفی ، اقلیتوں کے تعلیمی واقتصادی حقوق پر مولانا عبدالرب اعظمی ،ماحولیات کے تحفظ سے متعلق تجویز مولانا یحیی کریمی ، مسلم اوقاف کے تحفظ سے متعلق تجویز مولانا عبدالقادر آسام اورسالانہ گوشوارہ رپورٹ مولانا نیاز احمد فاروقی نے پیش کیں ۔ اخیر میں جمعیة علماءاترپردیش کے ناظم ذہین احمد دیوبند نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔اجلاس میں نائبین صدر کے لیے مولانا مفتی سلمان بجنوری اور مفتی احمد دیولہ کا انتخاب عمل میں آیا ، جب کہ مولانا قاری شوکت علی ویٹ خازن منتخب ہوئے ، دوسری طرف سے فدائے ملت مولانا اسعد مدنی ؒ پر پروفیسر عبدالحی مرحوم کی لکھی ہوئی کتاب کا اجرا بھی عمل میں آیا، نیز فدائے ملت ؒ پر مولانا عارف قاسمی استاذدارالعلوم دیوبند اور مولانا حذیفہ کانپوری کی عربی کتاب اور مجموعہ مقالات حضرت مفتی مہدی حسن ؒ کا بھی اجرا عمل میں آیا ۔اس موقع پر طبی خدمات غریب نواز ٹرسٹ دیوبند نے پیش۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر