جمعیۃ علماء ہند کی قانونی پیروی رنگ لائی، دہلی کی عدالت نے UAPA کے الزام میں گرفتار 5 افراد کو کیا بری، صدر جمعیۃ مولانا محمود مدنی سے مل کر عبدالسبحان نے ادا کیا شکریہ۔
نئی دہلی: دہلی کی پٹیالہ ہاوس کورٹ نے لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں پانچ افراد کو بری کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کسی پاکستانی شخص سے اور اس سے متعلق موبائل فونز اور سم کارڈز کی محض برآمدگی دہشت گردی کی سازش کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ پٹیالہ ہاؤس کورٹس کے ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے محمد شاہد، محمد راشد، عصاب الدین، عبدالسبحان اور ارشد خان کو بری کر دیا جن پر سیکشن120B انڈین پینل کوڈ اور یو اے پی ایکٹ سیکشن 18, 18B, 20 عائد تھیں۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ”آپس میں بات چیت کرنے یا پاکستانی نمبر سے بات کرنے کے لیے استعمال ہونے والے موبائل فونز اور سم کارڈز کی محض بازیابی، کسی سازش کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔"جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے مقررکردہ وکیل دفاع سیئنر ایڈوکیٹ منندر سنگھ نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ مذکورہ پاکستانی نمبر خوفناک دہشت گرد جاوید بلوچی کا ہے۔ آئی او منیش چندرا نے اعتراف کیا ہے کہ کسی بھی پاکستانی نمبر کے حوالے سے ضروری معلومات جمع کرنا ممکن ہے، تو پھر تفتیشی ایجنسی کی جانب سے موبائل نمبر کی ملکیت سے متعلق تفصیلات جمع کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔"
عدالت کے سامنے ملزم عبدالسبحان سے متعلق وکیل استغاثہ (تحقیقاتی ایجنسیوں) نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ عبدالسبحان اور ملزم عصاب الدین عرف شوکت (عبدالسبحان کی بہن کا بیٹا) 2011 میں راجستھان کے ضلع بھرت پور کے گوپال گڑھ میں فرقہ وارانہ فسادات سے کافی متاثر تھے، جس میں ایک خاص برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد مارے گئے تھے۔ عبدالسبحان کالعدم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کا رکن تھا اور مذکورہ فسادات نے اس کے جذبہ جہاد کو بھڑکا دیا۔
استغاثہ کے مقدمے کے مطابق، عبدالسبحان جہاد کرنے کے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محمد راشد سے ملا جو ایک انتہائی حوصلہ مند شخص بتایا جاتا ہے۔ عبدالسبحان نے محمد راشد کو ’جہاد‘ کے لیے قائل کیا۔ عبدالسبحان نے جاوید اور صابر کو جو میوات کے رہنے والے تھے، کو بھی جوڑنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس کے ساتھ شامل نہیں ہوئے۔
عبدالسبحان نے اپنا منصوبہ محمد راشد کو بتا دیا۔ راشد نے جہاد کے لیے رقم اکٹھی کرنے کے لیے ایک تاجر کو اغوا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور یہ رقم دبئی میں جاوید بلوچی کی مدد سے حوالات کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔ اس نے راشد کو بتایا کہ جاوید بلوچی سے بات کرنے کے لیے راشد فرضی شناخت پر موبائل فون کنکشن/ سم کارڈ کا بندوبست کرے گا۔
ان تمام الزامات اور یو اے پی اے ایکٹ 18 کے مبینہ جرم کے سلسلے میں ملزمین کے خلاف ریکارڈ پر موجود ثبوتوں کا جائزہ لینے کے بعد، عدالت نے نوٹ کیا کہ استغاثہ کے ورزن میں بڑی بڑی خامیاں ہیں۔ ایسا کوئی مضبوط ثبوت نہیں ہے مقدمے کی سچائی ثابت کرنے لیے کافی ہو۔ کسی معتبر ثبوت کے بجائے صرف قیاس آرائیوں سے کام لیا گیا ہے۔عدالت نے یہ بھی ریکارڈ کیا کہ استغاثہ جاوید بلوچی کی شناخت کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔مجھے یہ بتانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ تفتیشی ایجنسی نے جاوید بلوچی کے نام سے مشہور ہستی کی شناخت قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ جاوید بلوچی کے نام سے کوئی شخص واقعی پاکستان میں موجود ہے یا نہیں یا کوئی شرارتی شخص فرضی شناخت کے تحت کام کر رہا ہے۔"
مذکورہ بحث کے پیش نظر عدالت نے استغاثہ کے مقدمے میں کوئی میرٹ نہیں پایا اور ملزمان کو بری کر دیا۔"مجھے یقین ہے کہ استغاثہ ریکارڈ پر یہ ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے کہ ملزمین کالعدم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے رکن ہیں، اس لیے، اس لیے وہ یواے پی اے ایکٹ کے تحت الزام سے بری ہونے کے مستحق ہیں۔"
عدالت کے اس فیصلے کے بعد فوری طور سے ملزم عبدالسبحان و دیگر بری ہوگئے، وہ تحصیل نگینہ ضلع میوات کے رہنے والے ہیں، آٹھ سال تک قید ناحق کی سزا سے رہائی کے بعد دفتر جمعیۃ علماء ہند پہنچ کر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی سے ملاقات کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔انھوں نے جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی ا ور قانونی معاملات کے انچارج مولانا نیاز احمد فاروقی سے بھی ملاقات کی۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے قانونی معاملات کے پیروکار ایڈوکیٹ محمد نوراللہ اس معاملے میں کافی سرگرم رہے۔واضح ہو کہ جمعیۃ علماء ہند دہشت گردمی کے الزام میں بند بے قصور گرفتار شدگان کے مقدمات کی پیروی کرتی ہے،جمعیۃ کی کوشش سے اب تک سینکروں افراد مقدمات سے بری ہوئے ہیں۔
سمیر چودھری۔
0 Comments