Latest News

ماحولیاتی تحفظ کےلئے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے : قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

ماحولیاتی تحفظ کےلئے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے : قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

mdfaiyazqasmi@gmail.com
اس کائنات کے تمام اجزا، روشنی، ہوا، پانی، مٹی، چٹانیں، عناصر، نباتات و حیوانات وغیرہ اپنے اندر کچھ مقاصداور فوائدرکھتی ہیں اورحضرت انسان شعوری اورغیرشعوری طورپر ان سےاس طرح مستفید ہوتاہےکہ اس کی حیات وممات ان پر منحصرہے،ان کی عدم موجودگی میں یاان سے کماحقہ استفادوہ نہ کرنےیاان کا استعمال غلط طریقے پر کرنے کی صورت میں خود انسان کی زندگی خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ اس لیے قرآن واحادیث میں ان مخلوقات کی اہمیت بیان کی گئی ہے،ان کی نشوونمااوران کی حفاظت کی ترغیب دی گئی، انھیں بلاوجہ نقصان پہونچانے کی ممانعت وارد ہوئی ہے،انسان کی یہ بھی ذمّہ داری ہے کہ وہ حتی المقدوران مخلوقات کی بقا اور ان کی نشوونماکے لیے کوشاں بھی رہے۔
 ایندھن،شعائیں،دھواں،غلاظت،فضلات،وغیرہ ماحول کومتاثرکرتے ہیں، کچرے کے ڈھیروں،فیکٹریوں، موٹرگاڑیوں سے خارج ہونے والےزہریلی گیس،اوربجلی کی پیداوار کے چند ذرائع بھی فضائی آلودگی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق موجودہ دور کی فضاء میں ١۷۵۰ء کے نسبت ٣١%زیادہ کاربن ڈائی آکسائید جیسی مہلک گیسیں موجود ہیں۔
 جب انسان اس آلودہ ماحول میں سانس لیتاہے،تو اس وجہ سے وہ مختلف اقسام کی ذہنی و جسمانی بیماریوں سے دوچارہوتاہے، کینسرجیسی موذی بیماریاں اور پھیپھڑوں اور گلے کی پیچیدہ بیماریاں ماحولیاتی آلودگی کی پیداوارہیں۔ٹی بی الرجی،ذہنی تناؤ،سردرد،تھکاوٹ وغیرہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہیں۔
 میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرِ ماحولیات سٹیون بیرٹ کا کہنا ہے کہ گذشتہ ٥سے١٠برسوں کے اعدادوشمار سے ثابت ہے کہ شرح اموات میں اضافے کی بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔ یو این او کے ایک ذیلی ادارے کے تحقیقی سروے کے مطابق دنیا میں ہر سال تیس ملین افراد صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونیوالی بیماریوں کی وجہ سے مرتے ہیں۔اس لیے ماحولیاتی آلودگی ایک بین الاقوامی مسئلہ بن گیاہے، جس کےحل کے لیے حکومتیں اورمتعلقہ ادارے متفکرہیں۔
 ماحول کو آلودگی سے تحفط فراہم کرنے کے لیےنباتات،پانی،ہوا،مٹی وغیرہ اہم کرداراداکرتے ہیں۔یہ ساری چیزیں ماحول کوپراگندہ ہونے سے روکنے اورانھیں صاف وشفاف رکھنے میں بھی ممد ومعاون ہوتے ہیں، اس لئےماحول کوتحفظ فراہم کرنے والے وسائل پر بحث کرتے ہیں کہ شریعت اسلامی میں ان کی کس قدر اہمیت ہے؟
انسانی زندگی کے لئےنباتات کی اہمیت:
 انسانی زندگی کی بقا اور ترقی کےلئے نباتات کااہم کردار رہاہے،ان کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ نباتات ہی سے ہمیں غذا حاصل ہوتی ہے، اناج ،غلّہ، پھل اور سبزیاں نباتات ہی ہیں جن کی بدولت ہم جسمانی توانائی حاصل کرتےہیں۔نباتات صرف انسانوں کے لیے نہیں، بلکہ حیوانات کے لیے بھی غذاہیں۔ قرآن کریم نے اس طرف انسانوں کو متوجہ کیاہے: ترجمہ:’’ تو انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے ،کہ ہم نے ہی خوب پانی برسایا ،پھر ہم نے ہی زمین کو اچھی طرح پھاڑ دیا ،پھر ہم نے ہی اس میں اناج،انگور ، ترکاری، زیتون اور کھجور اور گھنے باغات، اور طرح طرح کے پھل اور چارے اگائے،جو تمہارے اورتمہارےچوپایوں کے فائدےکے لئےہیں‘‘۔(عبس: ۲۴-۳۲)
 دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے:ترجمہ:اچھاپھریہ بتلاؤکہ تم جو کچھ (تخم وغیرہ)بوتے ہو،اس کوتم اگاتے ہویاہم اگاتے ہیں،اگرہم چاہیں تو اس (پیداوار)کوچوراکردیں۔(الواقعۃ:۶٤)
 نباتات کی اہمیت کے پیش نظر حدیث میں اس کی کاشتکاری کی تعلیم دی گئی ہے اوراس پر ثواب مرتب کیاگیاہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: جب کوئی مسلمان کوئی درخت لگاتاہےیاکھیتی کرتاہے،اورپھر اس سے کوئی پرندہ یاانسان یاکوئی جانورکھاتاہے تویہ اس کےلیے صدقہ ہے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:٢٣٢٠)
 دوسری طرف اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حتیٰ کہ حالتِ جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے، تاآنکہ وہ دشمن کے لیے فائدہ مند نہ ہو جائیں، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔
انسانی زندگی کے لئے جانوروں کی اہمیت:
 ایک روایت میں ہے کہ گائے کی تخلیق کھیتی کے لئےبھی ہوئی ہے،یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض جانوروں کو کھیتی کے لئے پیدافرمایاہے،گر چہ ان سے دوسراکام بھی لیاجاتاہو۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے گائے سے سواری کاکام لیا،تو گائے نےآپ ﷺ کو دیکھ کرشکایت کی کہ میں اس کے لیے نہیں پیداکی گئی ہوں، بلکہ میری تخلیق تو کھیتی کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ "،(صحیح بخاری:٢٣٢٤)
 کتےکی خباثت کسی پر پوشیدہ نہیں ہے،نجاست سے انسیت اس جانور کی فطرت میں داخل ہے،انسان کی غلاظت جس کی خوارک ہے۔ہرکس وناکس جس کو دیکھ کر چھی چھی کرتاہے،مگر شریعت میں کھیتی کی حفاظت کے لیے اس کے پالنے کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔اس سے اندازہ لگانامشکل نہیں ہے کہ اسلام میں کھیت وغیرہ کی کس قدر اہمیت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ جوکوئی کتاپالےتو روزانہ اس کے عمل سے ایک قیراط کم ہوجائے گا،مگر وہ کتا جوکھیتی اورمویشی جانوروں کی حفاظت کے لیےہو، تو اس کے پالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:٢٣٢٢)
زندگی کے لیے ہوا کی اہمیت:
 ہواپرتمام جان داروں کی زندگی منحصرہے،جانداروں کے اندرہواکادخول وخروج ان کی بقاء کےلئے ضروری ہے،ہواکے بغیروہ چند منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہوامیں بھی قدرت نے آکسیجن اورکاربن ڈائی اکسائڈکا محیرالعقول نظام بنایاہے،انسان آکسیجن لیکر کاربن ڈائی اکسائڈچھوڑتاہے، جبکہ یہی کاربون ڈاایکسائڈنباتات کے لیے آکسیجن کاکام کرتاہےاورجو کچھ نباتات چھوڑتے وہ انسان کےلئے آکسیجن بنتے ہیں، ان کے علاوہ ہوا دیگر بہت سارے ضروری کام انجام دیتی ہے، مثلاً نباتات میں بارآوری اوران کی نشوونماکا عمل، بادلوں کی تخلیق اوران کی تحلیل نیز مختلف حصوں میں ان کی منتقلی ہواہی کاعمل ہے،قرآن کریم نے کئی جگہوں پر اس کوخدائی عطیہ قرار دیاہے۔ (الحجر۱۵:۱۹۔۲۳، البقرہ ۲:۱۶۴، الاعراف ۷:۵۷)
 انسانی صحت اور بقاء کیلئے کھلی فضاء اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری ہے،ہوا انسانی حیات کی بقا کا انتہائی اہم فریضہ انجام دیتی ہے،سانس اورپھیپڑوں کو بیماریاں آلودہ ہواسے پیداہوتی ہیں،اس لیےاس کی حفاظت کرنااوراس کو آلودہ ہونے سے بچاناانسانوں پر واجب ہوجاتاہے،اس طرح سے وہ تمام افعال جو ہوا کو آلودہ کریں اورانسانوں کی جان اوراس کی صحت پر اثر انداز ہوں، ممنوع قرار پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیڑی اورسگریٹ پینے کی ممانعت وارد ہوئی ہے،کہ بظاہر یہ ایک دھواں مانند ہواہے، مگر انسان کےپھیپڑوں کوچوں کہ نقصان پہونچاتاہے، اس لیے ممنوع ہے۔
 انسان جو سانس لیتاہے وہ آکسیجن ہے، اورجو سانس چھوڑتاہے وہ کاربن ڈائی اکسائڈہے،جب کہ نباتات اس کے برعکس سانس لیتے ہیں،وہ آکسیجن چھوڑکرکاربن ڈائی اکسائڈ لیتے ہیں۔کاربن ڈائی اکسائڈ ایک مہلک گیس ہے، اس سے سمند ری پانی کی تیزابیت میں اضافہ ہوتاہے،جس سے ماحول متاثر ہوتاہے۔ماہرین ِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس طرح کے گیسوں کے اخراج کی وجہ سے۔زمین کی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیاہے، جس کو گلوبل وارمنگ کہاجاتاہے۔ عام تاثر ہے کہ گلوبل وارمنگ کا بم ، جوہری بم سے بھی کئی گنا زیادہ خطرناک ہے؛کیوں کہ اس سےاوزن خطرہ میں پڑچکاہے،اوزن پھٹ رہاہے،اورسورج کی تپش براہ راست روئے زمین پرپڑنے لگی ہے،جس سے مہلک امراض پیداہورہے ہیں۔کاربن ڈائی اکسائڈ جیسے مہلک گیسوں کی وجہ سے برفانی تودہ پگھل رہاہے ،جس سے سمندرکی آبی سطح بڑھ کر کئی ساحلی شہروں کوغرق آب کرسکتاہے۔انسان حیوان کے بشمول نباتات سبھی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔کاربن ڈائی اکسائڈحبس، دمہ،بلڈ پریشرفالج وغیرہ کئی مہلک بیماریوں کاسبب ہے۔اس لیےاگر نباتات زیادہ ہوں گےتو کاربن ڈائی اکسائڈ والاگیس کم ہوگاجس سے لامحالہ اوزون کی حفاظت،انسانی جانوں کو لاحق خطرات سے نجات اورپانی کاتحفظ ہوسکے گا۔
زندگی کے لئےپانی کی اہمیت:
 انسان کی زندگی میں پانی کی بہت زیادہ اہمیت ہے، پانی سے انسان کی تخلیق بھی ہوئی ہے اوراس کے زندہ رہنے کے لئے پانی کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے،پیاس بجھانے کے لیے، کھانابنانے کے لیے،برتن اورکپڑے دھونے کے لئے،پاکی حاصل کرنے کے لیے کھیتوں کی سیرابی،درخت وپودوں کی ہریالی برقراررکھنے کے لئے پانی نہایت ہی ضروری ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ پرپانی کی اہمیت کو بیان کیاہے،اس کو اپنی قدرت ،اورانسانوں کے لیے عظیم نعمت قراردیاہے۔(الحجر ۱۵:۱۹، النور ۲۴:۴۱، طٰہٰ ۲۰:۵۳)۔
پانی کوآلودہ کرنامنع ہے:
 پانی کی اہمیت کے پیش نظرٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیاگیاہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیاہے۔(صحیح مسلم:٢۸١)پانی میں پیشاب کرنے سے منع کرنےکی یہ وجہ بھی ہے کہ اس سے پانی گندہ اورناپاک ہوجائے گااورتعفن پھیلے گا،جس کااثر ہماری صحت پر پڑے گا،دوسری طرف ایسے پانی سے استفادہ بھی ناممکن ہوجائے گااورہم اس پانی سے دیگرگندگیوں کو پاک وصاف نہیں کرسکیں گے۔اس کااثر براہ راست ہم پر اور ہمارے ماحول پر پڑے گا۔جس سے طرح طرح کی بیماریاں پیداہوں گی،پیٹ ، کڈنی،پیشاب،خون کی زیادہ تربیماریاں آلود ہ پانی کے استعمال کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے، آلودہ پانی کے ذرات کی وجہ سے خاص طورپربچوں میں دماغی بیماریاں ہوتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ٢٠١٣ءمیں دس ملین سے زائد لوگ پانی سے پیداہونے والی بیماریوں سے مر چکے ہیں، اورمرنے والوں میں اکثر بچے ہیں۔اس لیے پانی کی حفاظت کرنااوراس کو آلودہ ہونے سے بچاناضروری ہے۔
مٹّی سے ماحولیات کاتحفظ:
 ماحول کو صاف وشفاف رکھنے میں مٹی بھی اہم کردار اداکرتی ہے،مٹی گندگیوں کواپنے پیٹ میں لیکر ہضم کرجاتی ہے، مرداروں کو اپنی آغوش میں لیکر چنددنوں کے اندرجذب کرلیتی ہےاورماحول کوتعفن سے محفوظ رکھتی ہے،اسی طرح زمین نباتات کی پیداوار کاذریعہ ہے،جس سے انسانوں کو آکسیجن فراہم ہوتے ہیں،قرآن میں کہا گیا کہ زمین جان داروں کے قیام کا ذریعہ ہے۔ (یونس ۱۰:۵۵)،اسی زمین پر انسان اپنی پسند کا گھر بناتاہے،قدرت نے اس زمین کو کہیں سخت اورکہیں نرم بنایاہے تاکہ انسان حسب ضرورت اورحسب موقعہ ان کااستعمال کرسکے،انسان اس کی پیٹھ پر سفر کرکے ایک جگہ سے دوسرے جگہ آمد ورفت کرتاہے۔سب سے بڑی فضیلت اوراہمیت زمین کی یہ ہے کہ خود انسان کی تخلیق بھی اولاً مٹّی سے ہوئی ہے،(طٰہٰ ۲۰:۳۰)۔ زمین میں پائی جانے والی معدنیات بالواسطہ یابلاواسطہ انسانوں، نباتات اور دیگر جان داروں کی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اکثر جان دار بشمول انسان اپنی غذازمین سے حاصل کرتے ہیں۔ (الحجر ۱۵: ۱۹۔۲۰)۔ اس لئے ماحول کو متاثر کرنے والی اشیاء مثلامردار،ہڈی، خون،فضلات کو مٹی میں دفن کردیاجائے تو اس سے بھی ماحول کاتحفظ بہتر طورپر ہوسکتاہے۔
صوتی آلودگی اوراسلامی تعلیمات:
 آج کل آواز کی آلودگی سے لوگ باگ بہت زیادہ پریشان ہیں،ٹرافک،موٹرگاڑیوں، لاؤڈاسپیکر، مشین،اورہارن کی ضرورت سے زیادہ آوازنےانسان کے چاروں طرف ایک ہنگامہ برپاکررکھاہے،کسی زمانہ میں انسان کی آواز بغیر کسی لاؤڈاسپیکر کے کافی دور تک سنائی دیتی تھی، مگر آج آواز کی آلودگی کی وجہ سےاس کی آواز قریب فاصلہ تک سنائی نہیں دیتی ہے، دراصل آواز کو اپنی رفتار طے کرنےکے لیے پرسکون ماحول درکارہوتاہے، چوں کہ چاروں طرف شوروہنگامہ ہمہ وقت موجودرہتاہے،اس لیے آواز اپنی رفتار طے نہیں کرپاتی ہے، اس شوروہنگامہ نے انسان کی قوتِ سماعت پر بہت ہی برااثرڈالاہے۔ صوتی آلودگی کی وجہ سےانسان یکسو ہوکر کام کاج نہیں کرپاتاہے،اس کی توجہ منتشررہتی ہے،توجہ یکجاکرنےمیں کافی دشواری ہوتی ہے،جس کی وجہ سے آدمی جلد تھک جاتاہے،اسی طرح صوتی آلودگی سے دل ودماغ کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ان کے علاوہ صوتی آلودگی عمارتوں کو بھی نقصان پہونچاتی ہے،سخت آواز کی وجہ سےبعض دفعہ درودیوارہلنے لگتی ہیں اورنتیجہ کے طورپر کمزورہوکر گر جاتی ہیں۔تحقیق کے مطابق صوتی آلودگی فصلوں کی پیداوار اورپودوں کی نشونمامیں بھی رکاوٹ بنتی ہے۔
  اسلام نے کرخت آواز کو سختی سے ناپسند کیاہے، قرآن کریم نے تیزآواز کواس گدھے کی آواز سے تشبیہ دی ہے ، جوبلاوجہ ڈھینچوڈھینچوکرکےسمع خراشی کرتے رہتاہے،(لقمان ۳۱:۱۹)،بلکہ اسلام نے آواز کے معاملہ میں بھی معتدل راہ اختیار کی ہے کہ آواز نہ بہت زیادہ بلند ہوجس سے لوگوں کو حرج ہو اور نہ ہی اتنی دھیمی کہ سنائی نہ دے۔
 قرآن کریم نےرسول اللہ ﷺکی آواز کے مقابلہ میں اپنی آوازپست رکھنے کی تاکید کی ہےاوراس کی خلاف ورزی کرنے سےاعمال صالحہ کے ضائع ہونے سےڈرایاہے،نیز پست آواز والے لوگوں کو مغفرت کی بشارت بھی دی ہے۔ترجمہ:اے ایمان والو! تم اپنی آوازیں پیغمبر علیہ السلام کی آواز سے بلند مت کیاکرو،اورنہ ان سے ایسے کھل کربولاکرو،جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے کھل کوبولاکرتے ہو،ورنہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں،اورتم کوخبر بھی نہ ہو،بے شک جولوگ اپنی آوازوں کورسول اللہ ﷺ کےسامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے خاص کردیاہے،ایسے لوگوں کے لئے مغفرت اوراجر عظیم ہے۔(سورہ حجرات٢-٤) 
 اسلامی عبادات میں بھی اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ آواز یں ضرورت سے زیادہ بلند نہ ہونے پائیں، چنانچہ دن میں پڑھی جانے والی نمازوں میں تلاوتِ قرآن کوسری رکھاگیا،تاکہ غیرنمازیوں کوجوعموما دیگر کاموں میں مشغول ہوتے ہیں، خلل نہ ہو، اوررات کی نمازوں میں تلاوت جہری رکھاگیا،تاکہ پرسکون ماحول میں نمازی اس کی آواز سے محظوظ ہوسکیں۔اذان کی آواز جسے دورتک پہونچانامطلوب ہے، وہ بھی بلندی پرجاکردیاجاناسنت ہے؛ تاکہ قریب ہونے کی وجہ سے آوازکی سختی کانوں کو نقصان نہ پہونچائے اسی طرح سے دعا اور ذکر کا بھی معاملہ ہے۔قرآن کریم میں ہے:ترجمہ: اپنے رب کو پکاروعاجزی اورچپکے سے،بے شک وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں.(الاعراف:٥٥)دوسری جگہ ہے۔ترجمہ: اوراپنےرب کو دل ہی دل میں عاجزی اورڈرکرپکارو،اورزور کی آواز کی نسبت کم آواز کےساتھ صبح وشام، اورغافل لوگوں میں نہ ہونا۔(الاعراف:٢٥٥)
چراغ جلاکر چھوڑکرنےکی ممانعت:
  نبی رحمت ﷺنے ارشادفرمایا کہ رات میں سوتے وقت آگ کو یوں ہی چھوڑے نہ رکھو۔(ابوداؤد:٥٢٣۶)ایک دوسری حدیث میں ہے،آپ ﷺنے فرمایا کہ جب تم سونے لگو توجلتے چراغوں کوبجھادو، کیوں کہ شیطان اس کو کسی دوسری چیز سے لگادیتاہے اورتمہیں جلانے کی کوشش کرتاہے۔ (ابوداؤد:٥٢٣۷)
تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے کی ہدایت:
 اسی طرح ارشاد نبوی ؐ ہے: ’’راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا نیکی ہے‘‘۔ (ابوداؤد:٥٢٤٣) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا:ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ان کا آخری درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا ہے۔ (سنن ترمذی:٢۶١٤)
طبعی کراہت والی اشیاء سے ماحول کاتحفظ:
اسی طرح تھوک وبلغم ،ناک کی رینٹھ وغیرہ کوپاک ہونےکے باوجود دفن کرنے کاحکم دیکر ایسے چھوٹے اعمال کو صدقہ فرمایاگیاہے۔(ابوداؤد:٥٢٤٢)دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’میرے سامنے میری امت کے اچھے اور برے سب اعمال پیش کیے گئے تو میں نے اس کے جو اچھے عمل دیکھے ان میں راستے سے دور کی جانے والی ایذا رساں چیز تھی، اور اس کے برے کاموں میں تھوکا ہوا بلغم تھا جو مسجد میں پڑا رہتا ہےاور اسے دفن نہیں کیا جاتاہے‘‘۔ (صحیح مسلم:٥٥٣)
قضاء حاجت کے تعلق سے رہنمائی:
اسلام ماحول کو صاف ستھرارکھنے اور ہر اس چیز سے جو کسی بھی شکل میں ماحول کو آلودہ کرے، بچنے کا حکم دیتا ہے، حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: لعنت کی تین باتوں سے بچو،پانی پینے کے مقامات، راستے کے درمیان اور سایہ میں پاخانہ کرنے سے ۔ (ابوداؤد:٢۶)
حدیث میں کھلے عام جنگلوں میں قضاء حاجت کرنے کاثبوت ملتاہے، مگر چوں کہ اس وقت آبادی کم تھی اوربیابان زیادہ تھا، اس لیے لوگ باگ آبادی سےکافی دور بیابانوں میں جاکر قضائے حاجت کرتے تھے، حدیث میں ہے کہ رسول ﷺ قضائے حاجت کے لیے بہت دورنکل جایاکرتے تھے۔(ابوداؤد:١)،دوسری حدیث میں ہے کہ اتنی دورجاتے کہ لوگ دیکھ نہ سکیں۔ (ابوداؤد:٢)محدثین کرام نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ غائت درجہ شرم وحیاکی وجہ سے آپ ﷺ ایساکرتے تھے،دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آبادی میں اگر کھلے عام قضاء حاجت کیاجائے تو اس سے ماحول پراگندہ ہوگا،طرح طرح کی بیماریاں پیداہوں گی، اس لیے آبادی سے ہٹ کر بیابانوں کارخ کیاجائے، بہرحال گاؤں دیہاتوں میں ایساممکن ہے۔اس سے ماحول آلودہ نہیں ہوگا۔مگرآبادی کے اندرکھلے عام قضاءحاجت کرناجائز نہیں،یہ حیا اورستر دونوں کے خلاف ہے، نیز یہ ماحول کوپراگندہ کرنےاورطرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کاسبب بھی ہے۔مگر افسوس کہ اس کے باوجود بعض بے حیالوگ جہاں چاہتے ہیں اپنی ضرورت پوری کرلیتے ہیں، خاص طورپر ریلوے اسٹیشنوں،ریلوے پٹریوں، بس اسٹینڈوں پر، یہ نہایت ہی بری عادت ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں پانچ سوملین لوگ بیت الخلاء سے محروم ہیں۔قضاءِ حاجت کی یہ شکل کہ فضلہ کھلے نالیوں میں بہنے لگے،ممنوع ہے،کیوں کہ اس سے بھی وہی سارے خطرات پیداہوں گے جو کھلے عام قضاء حاجت کرنے کی صورت میں ہوتے ہیں،البتہ گندے پانیوں کونالیوں میں بہانے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ نالیاں گندے پانیوں کی نکاسی کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں۔بہرحال اس طرف عوام اورحکومت دونوں کو توجہ دینی چاہئےاور بیت الخلا ء کاانتظام کرنااورکراناچاہئے؛نیز اس کا استعمال بھی ہوناچاہئے۔
الیکٹرانک کچرے سے ماحول کی حفاظت:
آج کل مشین خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو انسان کی ضرورت بن گئی ہے،خاص طورپر کمپیوٹر،فریج،ایرکنڈیشن وغیرہ ہر گھر کاحصہ بن گئے ہیں،اس سے نکلنے والی شعائیں انسان کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں، اس سے فضائی آلودگی پیداہوتی ہے۔ اس لئے حکومت اس کے لئے کوشاں ہے کہ دھواں فری موٹراورالیکٹرانک سامان تیارکروائےجائیں۔ایسے وسائل جس میں دھواں نہیں ہوتاہےاورجس سے ماحول آلودہ نہیں ہوتاہے،وہ نسبتاکسی قدرمہنگے ہوتے ہیں، اس لیے مالدارلوگوں کو ایسے وسائل استعمال کرناچاہئے؛تاکہ انسانی زندگی کوتحفظ فراہم ہوسکےاورخطرات کے بادل اس کے سرپرنہ منڈلائے،اس سے جہاں ایک طرف انسان بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہے گاوہیں دوسری طرف شریعت کے مقاصد کی تکمیل بھی ہوگی۔قرآن کریم میں ہے کہ اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والاہے۔(سورۃ النساء:٢۹)؛البتہ جولوگ غریب ہیں اورجن کے لیے ایسےمہنگےوسائل کی خریداری ممکن نہیں ہے، یاممکن تو ہے مگر اس سے تنگی وحرج میں مبتلاہونے کاغالب گمان ہے تو ان کے لیےایسے وسائل کی خریداری لازم نہیں ہوگی،ورنہ اس سے لوگ تنگی وحرج میں مبتلاہوجائیں گے، حالاں کہ رفع حرج اصول اور مقاصد شریعت میں سے ہے،اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ: اوراللہ نے تم پر دینی معاملات میں تنگی نہیں رکھی ہے۔ (سورۃ الحج:۷۸)


بیڑی وسگریٹ سے ماحول کی حفاظت:
بیڑی وسگریٹ نوشی وغیرہ سےانسانی جان کی ہلاکت کاخطرہ ہے،کینسر، پھیپڑوں کی بیماریاں عمومااسی سے پیداہوتی ہیں، چوں کہ اس سے نکلنے والےدھواں کی وجہ سے ماحول بھی آلودہ ہوجاتاہے، جس سے نہ یہ کہ صرف پینے والوں کونقصان ہوتاہے،بلکہ جولوگ نہیں پیتے ہیں انھیں بھی اس کاخمیازہ بھگتناپڑتاہے۔ اس لیے حکومتی سطح پر پابندی عائد کرنے کی درخواست کی جانی چاہیے۔ جہاں تک رہی بات شریعت میں اس کے حکم کی تو شریعت نے پہلے ہی سے مکروہ تحریمی قراردیاہے۔
تھوک ،پان اورگھٹکاوغیرہ میں بھی چوں کہ جراثیم پیداہوتے ہیں ،اس سے ماحول بھی پراگندہ ہوتاہے اوربیماریاں بھی پھیلتی ہیں،اس لیے کھلے عام تھوکنامناسب نہیں ہے۔اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے جاری ہدایات پر عمل درآمد کرناضروری ہے۔
پلاسٹک سےبنی ہوئی اشیاء سے ماحول کی حفاظت:
پلاسٹک کی تھیلی ،چائے کا کپ،پانی کی بوتل وغیرہ کااستعمال بہت ہی بڑھ گیاہے،چوں کہ یہ چیزیں نہایت ہی ردی اورخراب پلاسٹک سے بنائی جاتی ہیں،اسی وجہ سے نسبتااس کی قیمت بھی بہت کم ہوتی ہے،جب گرم چیزیں ان میں ڈالی جاتی ہیں تو یہ اپنی اصل ماہیت میں آجاتی ہیں اوراس سےکینسر کابھی خطرہ پیداہوجاتاہے۔دوسری طرف یہ چیزیں تحلیل بھی نہیں ہوتی ہیں،ان کوتحلیل کرنے کی صرف ایک ہی شکل ہے کہ ان کو جلادیاجائے اورجلانے کی صورت میں نہایت ہی بدبوداردھواں نکلتاہے، جس سے فضاء آلودہ ہوجاتی ہے اورسانس کی بیماریاں پھیلنے لگتی ہیں، اس سلسلے میں حکومت کوچاہئےکہ ان چیزوں پرپابندی عائد کردے، تاہم اگر حکومت اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوتاہی کرتی ہے تو مسلمانوں کو اس سے بچناچاہئے۔مسلمانوں کو چاہئےکہ پلاسٹک سے بنی ایسی اشیاء جن کو استعمال کرکے پھینکناپڑتاہوجیسے چائے کا کپ،پانی کی بوتل،سامان ڈھونے کی تھیلی وغیرہ،ان کااستعمال نہ کریں،البتہ ایسی اشیاء جن کو استعمال کرکے پھینکنے کی نوبت بہت کم آتی ہو جیسے قلم،رسی،پلاسٹک کے برتن وغیرہ تو ان کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
جانوروں کے ناقابل انتفاع اجزاءسےماحول کی حفاظت:
جانوروں کےوہ اجزاء جو کھائے نہیں جاتے ہیں،جیسےخون،اوجھڑی،اوراس کی غلاظت،یامردہ جانوروں کویوں ہی کھلے عام چھوڑدیاجائے تو یقینی طورپر ماحول آلودہ ہوجائےگا،فضاء بھی تعفن سے بدبودار ہوجائے گی،انسانوں؛ بلکہ دیگر جانوروں کابھی جینامشکل ہوجائے گا،حالاں کہ ازروئے شرع صفائی اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے،نظافت نصف ایمان ہے،پاک وصاف رہنا اللہ کو پسندہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ پاک ہیں، پاکی کو پسند کرتے ہیں،نظافت کو بھی پسند کرتے ہیں۔توتم لوگ پاک صاف رہاکرو۔(سنن الترمذی:٢۷۹۹) اس لیے لوگوں پرلازم ہے کہ ایسے اجزاء کو زمین میں دفن کردیں،کیوں کہ قدرت نے مٹی کے اندر یہ صفت رکھی ہے کہ وہ گوشت پوست حتیٰ کہ ہڈیوں کو بھی بہت جلد ہضم کرجاتی ہے،اسی وجہ سے شریعت میں مُردوں کو دفن کردینے کاحکم ہے۔
اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ بھی اپنی عوام کاتعاون کریں،خاص طورپر عیدالاضحیٰ کے موقعہ پر کثیر تعداد میں جانورذبح ہوتے ہیں، تو ان کے ناقابل انتفاع اجزاء بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں،اس لیے اگر حکومت تعاون کرے گی تو عوام کواور خاص طورپر مسلمانوں کو اپنے ماحول سے ان اجزاء کوفوراہٹانے میں اورفورادفن کردینے میں سہولت ہوگی۔
اس کی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت کی طرف سے خاص اسی کام کے لیے گلی کوچوں میں کوڑے دان ہوں،پھر ان کوڑے دانوں سے ان اجزاء کو ہٹانے کے لیے گاڑیوں کاانتظام ہو،جو فوری طورپرویرانوں میں لے جاکرپہلے سے کھودے ہوئےبڑےحوض وغیرہ میں دفن کردیں،اس سلسلے میں صرف آرڈر دینے سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ حکومت اپنی نگرانی میں یہ کام کروائے۔مسلم تنظیموں ،مساجد کے ٹرسٹیوں،اوردیگر رفاہی اداروں کو بھی چاہئے کہ اعزازی طورپر یہ خدمات انجام دیں۔مسلمانوں کوبھی چاہئے کہ اس سلسلے میں حکومت اوررضاکار تنظیموں کاتعاون کریں،گاؤں دیہاتوں میں جہاں یہ سہولیات بہم نہیں پہونچائی جاسکتی ہے ،وہاں کے رہنے والوں کو چاہئے کہ خود ہی یہ کام انجام دیدیں۔
شمسی توانائی کے ذریعہ ماحول کاتحفظ:
روشنی کے حصول کے لیے بھی ان ذرائع کو استعمال کرناان لوگوں کے لیے ضروری ہے، جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں اورجو لوگ اس کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں، ان کے لیےوہ حتیٰ المقدوران کا استعمال کم کرے، اوران ذرائع کو خریدنے کی کوشش کرتارہے جن سے آلودگی نہ ہوتی ہو۔گوکہ شمسی توانائی کے حصول کے لیےیکبارگی خطیر رقم لگتی ہے،مگرچوں کہ شمسی توانائی کے استعمال سے ماحول آلود ہ نہیں ہوتاہے،بجلی کی بچت بھی ہے ،بجلی بل سے چھٹکارہ ملتاہے، اس لیے صاحب استطاعت لوگوں کو چاہئے کہ اپنے مکان میں، آفس اورفیکٹریوں میں نیز مساجد ومدارس میں بھی شمسی توانائی کااستعمال کریں ۔
ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سب سے اہم کام یہ ہے کہ درخت اورپودے کثرت سے لگائے جائیں،تاکہ ماحول کی حفاظت میں یہ اہم کرداراداکرسکیں اورحدیث کے مطابق ثواب بھی حاصل ہوتارہے۔ فقط

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر