Latest News

جج صاحبان کی ٹرولنگ کیوں؟ شکیل رشید

جج صاحبان کی ٹرولنگ کیوں؟ شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
سپریم کورٹ کی ، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا کی دو رکنی بنچ کا ، گستاخ نوپور شرما پر سخت تبصرہ ، جب سے سامنے آیاہے ، بی جے پی اور بھگوا بریگیڈ نے ، دونوں کے خلاف گالیوں کا پٹارہ کھول دیا ہے ۔ دونوں جج صاحبان کے خلاف ، انتہائی ناشائستہ جملے لکھ کر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر روزانہ ہی غلاظت انڈیلی جا رہی ہے ۔ جسٹس سوریہ کانت ترپاٹھی کو ’ کنٹ ‘ کے انتہائی غیر مہذب لفظ سے مخاطب کیا گیا ہے ۔ یہ ٹرول آرمی کسی اور کی نہیں بھگوائی میڈیا سیل کی ہے ، اور اس سیل کی آرمی کا حصہ ، چند روپیے لے کر غلیظ پوسٹ لکھنے والے بےروزگار نوجوان ہی نہیں ہیں، دو فلمی ہستیاں انوپم کھیر اور وویک اگنی ہوتری بھی ہیں ۔ایک بھگوائی نے تو باقاعدہ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمناکو ایک ’ لیٹر پٹیشن ‘بھیج کرمطالبہ کیا ہے کہ تبصرے واپس لیے جائیں۔ساری ٹرولنگ کا مقصد عام لوگوں کو یہ تاثردیناہے کہ سپریم کورٹ نے نوپور شرما کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ بات صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود نہیں ہے ، بلکہ اب توسوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ہٹ کر بھی یہ معاملہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔پیر ۴، جولائی کو ملک کے ۱۱۷ ، خواص نے ، جنہیں سپریم کورٹ کے تبصرے میں کیڑے نظر آ ئے ہیں، متحد ہو کر چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک خط بھیج کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ دورکنی بنچ نے نوپور شرما کے خلاف جو سخت تبصرے کیے ہیں وہ واپس لیے جائیں ۔خط بھیجنے والے وہ لوگ ہیں جو کبھی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوا کرتے تھے ،جیسے کہ سابق جج صاحبان ، سابق نوکر شاہ اور سابق فوجی سربراہان۔ان کا یہ ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کے دونوں ججوں کا تبصرہ ’’ سپریم کورٹ کا اپنے حدود سے تجاوز کرنا ہے ۔‘‘ یاد رہے کہ دو رکنی بنچ نے بہت ہی صاف لفظوں میں کہا ہے کہ نوپور شرما ،’’ آج ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی واحد ذمہ دار ہے ، اس نے جو بیان دیا تھا اسی کے سبب ادئے پور میں قتل کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا ، اس کے بیان نے لوگوں کو مشتعل کیا ، لوگوں کے جذبات بھڑکا دیے ، اس خاتون نے پورے ملک میں آگ لگا دی ۔ ‘‘ اور سپریم کورٹ کی یہ بات کوئی غلط تو نہیں ہے ۔ ادئے پور کی واردات کا سبب ، نوپور شرما کا بیان اور اس بیان کی حمایت ہی بنا ہے۔ امراوتی میں ایک کیمسٹ کے قتل کی واردات کے پیچھے بھی نوپور شرما کے بیان ہی کو وجہ بتایا جا رہا ہے ۔ اور روزانہ ملک بھر میں نوپور شرما کی حمایت اور مخالفت میں جو باتیں کی جا رہی ہیں ، جو مظاہرے ہو رہے ہیں ، جس طرح بند کا اہتمام کر کے مسلمانوں کو ہلاک کرنے اور ان کی معاشی ناکہ بندی کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے ، وہ جگ ظاہر ہے ، اور اس سے یہ بھی خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ ملک بھر میں نفرت کی خلیج کو مزید وسیع کرنے اور کشیدگی میں اٖضافہ کرنے میں نوپور شرما کے بیان کا کلیدی کردار رہا ہے ۔ تو جج صاحبان نے تو کچھ بھی غلط نہیں کہا ،پھر ان سابق وی وی وی آئی پی حضرات کو کس بات پر اتنا طیش آ گیا ،کہ بجائے جج صاحبان کے تبصروں کی حمایت کرنے کے اس کی مخالفت میں چیف جسٹس کے نام ایک خط داغ دیا!ٹرول آرمی اور سابق ججوں ، سابق نوکرشاہوں اور سابق فوجی افسروں کو مرچی اس بات کی لگی ہے کہ نوپور شرما پر تبصرہ ایک طرح سے بی جے پی پر تبصرہ ہے۔شرما بی جے پی کی ترجمان تھی ،اس کا مطلب یہ کہ اس کا کہا حقیقتاً اس کا نہیں بی جے پی کا کہا تھا۔ جج صاحبان کے تبصروں پر اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اقتدار کی کرسیوں پر متمکن افراد سے خوش نہیں ہیں ۔سوریہ کانت ترپاٹھی کا یہ تبصرہ ملاحظہ کریں ، ’’ اقتدار کا نشہ اس قدر سر پر نہیں چڑھنا چاہیے کہ یہ لگنے لگے کہ چاہے جو بھی کہہ دیا جائے برسرِ اقتدار پارٹی بچا لے گی ۔‘‘ یہ ایک طرح سے مرکز کو لتاڑ ہے ، لتاڑ اس بات کی کہ اس نے اپنے ترجمانوں اور لیڈروں کو اس قدر چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں ،نتیجے میں ملک میں آگ لگ جاتی ہے ، اور پھر اس آگ لگانے والے کو آکر بچاتے بھی ہیں ،لیکن یہ قبول نہیں ہے ۔ جج صاحبان نے پولیس پر بھی نکتہ چینی کی ہے کہ وہ محمد زبیر کو تو ایک شکایت پر گرفتار کر لیتی ہے اور جس نوپور شرما کے خلاف درجنوں ایف آئی آر ہیں اسے بچاتی پھرتی ہے ۔ گویا یہ تبصرے صرف نوپور شرما پر نہیں ، مرکزی حکومت اور اس کی انتظامیہ کی جانبداری پر بھی تھے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے تبصرے اُسے ہضم نہیں ہو سکتے جو’ بھکت ‘ ہو، یا جو صرف اپنی تعریف سننے کا خواہاں ہو۔بہت سے سابق وی وی وی آئی پی ’ بھکت ‘ ہیں ،اور رہی مودی حکومت تو اس پر یہ ایک بڑا الزام یہی ہے کہ وو اپنے نکتہ چینوں اور اپنے نقادوں کا منھ بند کرنے پر یقین رکھتی ہے ، اظہارِ رائے کی آزادی اس کی نظر میں ایک ’ گناہ ‘ ہے ۔ اس طرح کے ٹرول یقیناً انصاف کی راہ میں مزید اڑچنیں پیدا کریں گے ، جج صاحبان پر شدید دباؤ پڑے گا اور فیصلے متاثر ہوں گے ۔ جسٹس پاردی والا نے ٹرولنگ پر بات کرتے ہوئے درست کہا ہے ، ’’سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کا سہارا،بنیادی طور پر ججوں کے خلاف ذاتی رائے کا اظہار کرنے کے لیےا لیا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ ان کے فیصلوں کا تعمیری تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ یہی چیز عدالتی ادارے کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس کے وقار کو پست کر رہی ہے۔ فیصلوں کا علاج سوشل میڈیا سے نہیں ہوتا بلکہ درجہ بندی میں اعلیٰ عدالتوں سے ہوتا ہے۔ جج کبھی بھی اپنی زبان سے نہیں بولتے، صرف اپنے فیصلوں سے۔ ہندوستان میں، جس کی تعریف مکمل طور پر بالغ یا متعین جمہوریت کے طور پر نہیں کی جا سکتی ہے، سوشل میڈیا کو خالصتاً قانونی اور آئینی مسائل کو ،سیاسی رنگ دینےکے لیے کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ سابق وی وی وی آئی پی حضرات سے درخواست ہے کہ جج صاحبان پر انگلی اٹھائیں بھی تو تعمیری نقطہ نظر سے ، بھلے ان کا کوئی فیصلہ کوئی تبصرہ پسند آئے یا نہ پسند آئے ۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر